|

وقتِ اشاعت :   November 11 – 2017

کوئٹہ: یورپی یونین کے سفیر وفاقی وصوبائی وزراء ،سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 80فیصد سے زائدآبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبور ہے ۔

بلوچستان میں موجود قدرتی وسائل کا استعمال کرکے صوبے کو ترقی دی جاسکتی ہے صوبے میں بات چیت اور مشاورت کے فقدان کی وجہ سے بیشتر فنڈز ضائع ہوجاتے ہیں بلوچستان میں ماضی کی نسبت امن وا مان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ڈونر صوبے میں ترقیاتی کاموں میں دلچسپی کے رہے ہیں ۔

یہ بات یورپی یونین کے سفیر برائے پاکستان جین فرانکوایس کوٹین (Mr. Jean Francois Cautain) ،وفاقی وزیر پوسٹل اینڈ سروسز مولانا امیر زمان ،صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد اچکزئی،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ،وزیراعلیٰ کے مشیر برائے جنگلات و جنگلی حیات عبیداللہ بابت،سینیٹرنوابزادہ سیف اللہ مگسی ،رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمدجمالی ،سابق سینیٹرثناء اللہ بلوچ،سیکرٹری پی اینڈ ڈی اسفند یار کاکڑ،چیئرمین آر ایس پی این شعیب سلطان ،سابق وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال ،بی آرایس پی کے سی ای او نادرگل بڑیچ اوردیگر نے بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

پروگرام بلوچستان کے 8اضلاع میں شروع کیا جائے گا جس کے تحت صوبے میں اقتصادی پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔

یورپی یورنین کے سفیر جین فرانکوایس کوٹین نے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز خود کش دھماکے میں ڈی آئی جی پولیس اور دو پولیس اہلکاروں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ برس بلوچستان کیلئے 7ملین یو رو سے امداد کو بڑھا کر 45ملین یورو کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے آج پورا کردیا ہے یورپی یونین چاہتی ہے کہ بلوچستان میں لوکل کمیونٹی مضبوط ہو اور یہاں کے لوگوں کو منظم اور وسائل دیئے جائیں تاکہ وہ غربت سے نکل کر اپنی بہتر معاشی زندگی بسر کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ جھل مگسی اور دیگرعلاقوں کادورہ کرکے یورپی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنی اسکیمات کا جائزہ لوں لیکن حکومت کی جانب سے این اوسی نہیں دیا گیا اگر ہمیں منصوبوں تک رسائی نہیں ملے گی تو مزید بہتری ممکن نہیں ہے ۔

یورپی یونین حکومت بلوچستان یا پاکستان نہیں ہم حکومت کا متبادل نہیں صرف مدد کرسکتے ہیں اگر حکومت موثر طریقے سے پرانے منصوبوں کی دیکھ بھال کرے گی تو ہم مزید تعاون کریں گے ۔

انہو ں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ بلو چستان کی عوام اور حکومت دونوں ترقی کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر پوسٹل اینڈ سروسز مولانا امیرزمان نے کہا کہ بلوچستان کا رقبہ وسیع و عریض ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں مشکلات ہیں ۔

بلوچستان دہشت گردی سے متاثر صوبہ ہے جس میں فیلڈ میں کام کرنا مشکل ہے یہاں پانی ،تعلیم اور صحت کے مسائل ہیں بیورو کریسی پلاننگ نہیں کرتی جس کی وجہ سے بیشتر کام فزیبلٹی رپورٹ پاس نہیں کرتے۔

صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ یورپی یونین نے حالات بہتر ہونے کے بعد صوبائی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ہماری حکومت دن رات کوشش رہی ہے کہ حالات کو مزید بہتر بناکر بیرونی ڈونرز کو یہاں لایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں امن و امان کیلئے ضروری ہے کہ جمہوری حکومت کو پنپنے دیا جائے پاکستان میں دوقسم کے اسلام کے نام پر جنگ کی گئی اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائیں تو یہ ہم نہیں کریں گے کیونکہ پاک فوج زندہ باد ہے اور کسی بھی ادارے کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کیلئے زندہ باد کے نعرے لگائے جائیں گے ۔

ایسا کرنے پر آئیں تو پھر واپڈا زندہ باد ،پی اینڈ ڈی زندہ باد اوردیگر ادارے زندہ باد کے نعرے بھی لگانے پڑیں گے ہم چڑھتے سور ج کے پجاری نہیں ہیں اورکسی بھی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریں گے ۔

آمریت کی وجہ سے یہاں کی 80فیصد آبادی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزار رہی ہے جب تک ہمسایوں کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہوتے یہاں پر پائیدار امن نہیں آسکتا۔ 

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ 2013ء سے پہلے بلوچستان نوگو ایریا تھا لیکن اب بیرونی ڈونرز یہاں آرہے ہیں ہر سال 40ارب روپے لیپس ہونے کی بات درست نہیں ہے ایکسس سرنڈر ضرور ہوتے ہیں لیکن یہ پیسہ لیپس نہیں ہوتا بلوچستان کو بیرونی ڈونرز کی مدد کی ضرورت ہے اسکے ساتھ ساتھ عوام کو بھی تعاون کرنا چاہئے۔ 

وزیراعلیٰ کے مشیر عبیداللہ بابت نے کہا کہ بی آر ایس پی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں کیونکہ وہ عوامی مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے پینے کا پانی بھی ناپید ہوچکا ہے ۔

سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی نے کہا کہ بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ اور لسانی دہشت گردی کا شکار ہے جسکی وجہ سے صوبے کے عوام کو بہت نقصان پہنچا ہے بلوچستان کی عوام نچلی سطح پر زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں مدد باہر سے آتی ہے مگر تبدیلی اندرون خانہ ہوتی ہے ہمیں تبدیلی کیلئے کام کرنا ہے کرپشن ،اقربا پروری نے صوبے کا انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے ۔

رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاسی بنیادوں پر تقرریا ں و تبادلے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ترقی ممکن نہیں ہوتی این ایف سی ایوارد کے بعدوافر مقدار میں فنڈز ملے جن کا درست استعمال کیا جانا چاہئے۔

سابق سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ نوعیت کے معاشی سیاسی ،سماجی رابطوں اور بات چیت کی ضرورت ہے صوبے میں قانون سازی کے فقدان کی وجہ سے ہم اپنے وسائل کی حفاظت کرنے میں ناکام ہیں بلوچستان کی 86فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے 18لاکھ بچوں کے پاس تعلیمی سہولیات موجود نہیں ہیں کسی بھی منصوبے میں پلاننگ نظر نہیں آتی ہرسال بجٹ کاپی پیسٹ ہوتا ہے ۔

بلوچستان میں گڈگورننس کا فقدان ہے اگر ہم صوبے کی معدنیات سے فائدہ اٹھانا چاہئیں تو صوبے کو وافر آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہرسال 40ارب روپے لیپس ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح جہاز اور ہیلی کاپٹر خریدنا ہے اور پٹ فیڈر کا گندا پانی کوئٹہ لانے کیلئے فنڈز استعمال کر رہے ہیں جوکہ سراسر پیسے کا ضیاع ہے ایسے میں ذہن سازی کی ضرورت ہے ۔

بی آر ایس پی کے سی ای او نادر گل بڑیچ نے کہا کہ بلوچستان کے 8اضلاع قلعہ عبداللہ ،ژوب،پشین ، لورالائی ،جھل مگسی ،خضدار ، واشک ،کیچ میں پانچ سال کیلئے بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ پروگرام پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس میں یورپی یونین کی جانب سے صوبے کو پانچ سال کے دوران 45ملین یورو فراہم کئے جائیں گے ۔

سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے پروگرام شروع کرنے پر یورپی یونین کا شکریہ اداکیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کیلئے ایسے پروگرام ہونے چاہئے۔