پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ نے پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے 23 جماعتوں کا گرینڈ الائنس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں پرویز مشرف نے اس الائنس کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے کہ ہم اکٹھا ہونا چاہتے ہیں ۔
سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ جب بھی متحدہ قومی موومنٹ کا ذکر آتا ہے میرا نام لیا جاتا ہے، میں کراچی کی ایک لسانی جماعت کا سربراہ نہیں بنوں گا۔پرویز مشرف نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر تشویش ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان اب آدھی جماعت رہ گئی ہے اور میں فاروق ستار یا مصطفیٰ کمال کی جگہ نہیں لینا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد ایک دن چلا اور ختم ہو گیااگر دونوں جماعتیں اتحاد کر لیں تو بہتر ہے لیکن یہ دونوں اکٹھی ہو بھی گئیں تب بھی میں اس کا سربراہ نہیں بنوں گا۔ پرویز مشرف کی پاکستان کی سیاست میں متحرک ہونے اور نئے بننے والے اتحادسے یہ نہیں لگتا کہ آنے والے وقت میں یہ اتحاد بڑی جماعت بن کر ابھرے گی کیونکہ اس میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک بھی شامل نہیں ۔
یہ پرویز مشرف کیلئے ایک نیا تجربہ ضرور ثابت ہوگا مگر اس میں کامیابی کے فی الوقت آثار دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ پرویز مشرف سے بہت سی جماعتوں کے اختلافات ہیں انہیں دور کرنا آسان نہیں۔
پرویز مشرف کے ساتھ اتحادمیں اب تک جن جماعتوں نے شامل ہونے کا اشارہ دیا ہے یا باقاعدہ ایک جماعت میں ضم ہونے کی بات کی ہے اس میں کوئی ایسی پُراثر جماعت نہیں جس سے پاکستان کی سیاست میں کوئی بھونچال یا کلبلی مچ جائے البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک چھوٹا پریشر گروپ بن کر سامنے آجائے ۔
پرویز مشرف کا نئے اتحاد کی خواہش ایک تجربہ ضرور ہوسکتا ہے مگر ایک کامیاب سیاست نہیں۔ دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے حوالے سے ملک کی اہم مذہبی جماعتوں نے پھر ایک بار مضبوط الائنس بنانے کی تیاری کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان دسمبر میں کیاجائے گا۔
متحدہ مجلس عمل اس سے قبل بھی کافی نشستیں جیت کر ملک کی سیاست میں نمایاں رہی تھی۔ اس اتحاد کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملک کی بڑی مذہبی جماعتیں خاص کر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام شامل ہیں جن کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔
جماعت اسلامی اس وقت کے پی کے کی صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی جبکہ جے یوآئی(ف) مرکزی حکومت میں شامل ہے دونوں جماعتوں کا ووٹ بینک بھی اپنی جگہ موجود ہے اس اتحاد کی اہم جماعتیں یہی دونوں ہیں مگر کیا متحدہ مجلس عمل ماضی کی طرح اب بھی کامیاب ہوگی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاریاں ابھی سے شروع ہوچکی ہیں۔ سیاسی ماحول میں کافی گرما گرمی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔
نئے اتحاد کے تحت بننے والی جماعتیں خاص کر کے پی کے اور پنجاب کی سیاسی جماعتوں کو ٹف ٹائم دینگے ، بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام ف کی پوزیشن اب بھی مضبوط ہے اور اس وقت بھی بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستیں جے یوآئی ف کے پاس ہیں۔
حالیہ چاغی کوئٹہ نشست پر جے یوآئی ف کی کامیابی نے یہ ثابت کردیاکہ بلوچستان میں اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے شاید اگلے انتخابات میں جے یوآئی ف بلوچستان میں بننے والی نئی حکومت کا حصہ بھی بنے۔
اندرون سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک مضبوط جماعت ہے اور کراچی میں بھی ان کی مضبوط نشستیں ہیں پیپلزپارٹی کیلئے سندھ میں حکومت بنانا کوئی مسئلہ نہیں مگر دیگر صوبوں سے اس کے لیے نشستیں حاصل کر نے کیلئے اب تک گراؤنڈ بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور پی ایس پی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ اگلے انتخابات میں متوقع ہے اور اسی طرح کراچی میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی اپنا زور لگائینگی۔ مجموعی طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں نئے اتحاد ،نئی صف بندیاں سامنے آئینگی جوشاید نئی سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنیں۔