پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے تصدیق کی ہے کہ ان کی جماعت اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان سیاسی اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آج میں پورے پاکستان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے بلا کر فاروق ستار سے ملایا اور جب ہم وہاں پہنچے تو فاروق ستار پہلے سے موجود تھے۔
فاروق ستار کی فرمائش پر ہمیں بلایاگیا۔مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ پچھلے آٹھ مہینوں سے فاروق ستار اور ان کی پوری ٹیم فرمائشی پروگرام کر کے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کال کر کے بلاتے تھے اور ہم سے بات کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کون سا صحافی، اینکر، سیاست دان اور بزنس مین ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں کرتا ۔ ہم تو پہلے دن سے کہتے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے بات کرتے ہیں۔میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرتا ہوں لیکن ایجنٹ نہیں ہوں۔ اگر ایجنٹ ہوتا تو 2013 میں سینیٹر شپ چھوڑ کر نہ جاتا ایم کیو ایم میں رہ کر ایجنٹ بنتا، رابطہ کمیٹی میں رہ کر ایجنٹ بنتا۔
میں نے فاروق ستار اور ان کی پوری ٹیم کے سامنے یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ مجھے ایم کیو ایم میں شامل ہونے کا کہتے ہیں تو میں اپنی پارٹی بند کرتا ہوں۔ اپنے لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ جہاں سے آئے ہیں وہاں چلے جائیں لیکن میں ایم کیو ایم میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی تھی، ہے اور رہے گی۔یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے صدر مصطفیٰ کمال نے بدھ کو مشترکہ پریس کانفرنس میں سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایک عرصے سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں مشاورتی عمل جاری تھا لیکن اب فیصلہ ہوا ہے کہ مل کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی خدمت کی جائے اور بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی اتحاد قائم کیاجائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سیاسی اتحاد عارضی اور جزوی عمل نہیں، آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کو لے کر جائیں گے، آئندہ ملاقاتوں میں فریم ورک کو تشکیل دیں گے، اتحاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے کیونکہ سندھ اور کراچی کی خدمت کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔
پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال کی ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سامنے لانے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیوں سیاسی معاملات میں ایسی مداخلت ہورہی ہے بعض سیاسی رہنماؤں نے اس عمل کو ملکی سیاست کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے اگر مصطفی کمال کی بات میں صداقت ہے تو پوری بات سامنے آنی چاہئے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان اتحاد یا انضمام ہوناایک اچھا عمل ہے مگر اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ جب دونوں کے درمیان اتحاد ہوا تو اس کا فوری ردعمل ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنماؤں و کارکنان کی جانب سے آیا اس کی نسبت پی ایس پی کی طرف سے کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی۔
ایم کیوایم پاکستان کی سیاست میں اب بھی مہاجر جز موجود ہے جو اسے چھوڑنا نہیں چاہتے جس کی ایک جھلک فاروق ستار کے پریس کانفرنس کے دوران نظر آیا جہاں انہوں نے مہاجر صوبہ کی بات بھی کہہ ڈالی۔ مصطفی کمال مہاجر سیاست کو ترک کرتے ہوئے تمام اقوام کو ملاکر کراچی میں ایک نئی سیاست کی بنیاد رکھنے کے خواہش مند ہیں جس کا اظہار انہوں نے کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے دونوں جماعتوں کو کیونکر آپس میں اتحاد کیلئے اکٹھا کیا، اس کے پس پشت کیاعوامل ہیں۔
کچھ سیاسی مبصرین اسے ایک اچھا عمل سمجھ رہے ہیں کہ اس سے کراچی میں اردو بولنے والوں کاووٹ بینک نہ صرف مضبوط ہوگا بلکہ کراچی میں خونریزی کی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گی جبکہ دوسری طرف بعض سیاسی قائدین و مبصرین اس عمل کی شدید مذمت کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اپنا راستہ الگ کرے، اس کی مداخلت سے اچھے اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
کراچی کی سیاست کا ملک میں اہم کردار ہے ماضی میں جس طرح یہاں بدامنی اورلسانیت کے نام پر دہشت و بربریت کا راج تھا جس نے ملکی معیشت وسماجی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیاتھا۔البتہ تمام سیاسی مبصرین اس بات کے حق میں ہیں کہ کراچی کی سیاست میں لسانی فسادکو جڑ سے ختم ہونا چاہئے اسی میں کراچی کے شہریوں کابھلا ہے۔