|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2017

یوں تو ملک بھر میں آزادئ صحافت پر حملے ہورہے ہیں مگر بلوچستان میں صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے اور بلوچستان میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کا صحافی براہِ راست شکار ہوتے ہیں۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے چند سال قبل ایک حکم کے ذریعے بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو پابند کیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیموں کی خبریں شائع نہ کریں۔ 

اخبارات نے جب اس حکم کی پابندی کرنے کی کوشش کی توصحافی اور اخبارات شدید دباؤ میں آگئے۔ کالعدم تنظیموں نے صحافیوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ آن لائن نیوز ایجنسی کے بیورو چیف ارشاد مستوئی اور کئی صحافی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ 

پھر گزشتہ ماہ سے بلوچستان کی آزادی کے نام پر قائم جنگجو گروہوں کو یہ شکایت تھی کہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینل ان کی خبریں بالکل شائع او رنشر نہیں کررہے۔ یوں ان تنظیموں نے دھمکی دی کہ اخبارات کی تقسیم کو روک دیا جائے گا۔ 

ان جنگجو تنظیموں نے اس دھمکی پر عملدرآمدشروع کردیا۔ اخبارات تقسیم کرنے والی ایجنسیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور ہاکروں کو خوفزدہ کیا گیا۔ یوں بلوچستان کے دو اضلاع جہاں پشتون آبادی کی اکثریت ہے کے علاوہ باقی صوبے میں اخبارات کی ترسیل رک گئی۔ 

صوبائی حکومت نے اخبارات کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اخبارات کے دفاتر کو سیکیورٹی ایجنسیوں کے دستوں نے گھیر لیا۔ اخبارات میں آنے و الے عملے سے پوچھ گچھ کی جانے لگی مگر اخبارات کی تقسیم بحال نہ ہوسکی۔ صدیق بلوچ کا تعلق لیاری سے ہے۔

وہ نوجوانی میں ترقی پسند نظریات کے اسیر ہوگئے اور کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ہراول دستے میں شامل ہوئے۔ پھر عملی زندگی میں صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور روزنامہ ڈان کے ادارتی عملے میں شمولیت اختیار کی۔ 

صدیق بلوچ نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وہ عظیم رہنما غوث بخش بزنجو کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ جب 1972ء میں نیشنل عوامی پارٹی نے سرحد اور بلوچستان میں حکومتیں قائم کیں تو میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ میر بزنجو نے صدیق بلوچ کو اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی ایک سال سے کم عرصے تک بلوچستان میں برسر اقتدار رہی۔ 

صدر بھٹو نے بلوچستان حکومت کو برطرف کردیا۔ میر غوث بخش بزنجو اور ان کے ساتھی پابند سلاسل کردئیے گئے۔ صدیق بلوچ نے تقریباً چار سال کوئٹہ کے سیف ہاؤس اور مچھ، کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں گزارے۔

پھر رہائی کے بعد کراچی پریس کلب اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئے۔ صدیق بلوچ نے اس صدی کے آغاز پر کوئٹہ سے انگریزی اخبار’’ بلوچستان ایکسپریس ‘‘اور اردو کا اخبار ’’روزنامہ آزادی‘‘ کا اجراء کیا۔

اخبار شائع کرنے کا مقصد بلوچستان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافت کی ترویج کرنا تھا۔ ان اخبارات نے خبروں کومعروضی انداز میں پیش کرنے کا طریقہ اپنایا۔ جذباتیت اور حقائق کو مسخ کرنے، کسی نوعیت کی بلیک میلنگ اور ایجنڈا جرنلزم سے سے گریز کیا۔ یوں یہ اخبارات صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہوگئے۔’’ 

بلوچستان ایکسپریس‘‘ اور ’’روزنامہ آزادی‘‘ کی ویب سائٹ پر وزٹ کرنے والے افراد کی تعداد ریکارڈ رہی۔ انور ساجدی کا شمار ملک کے سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک زمانے میں روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے۔ 

ان کی تحریریں جنگ اور اخبار جہاں میں شائع ہوتی تھیں۔ ان تحریروں میں بلوچستان کے بارے میں معلومات کی بھرمار ہوتی تھی۔ انور ساجدی حقائق کو اپنی تحریروں کا محور بناتے تھے۔ 

انہوں نے کوئٹہ اور حب سے ’’روزنامہ انتخاب‘‘ کا اجراء کیا۔ روزنامہ انتخاب نے بلوچستان میں جلد ہی مقبولیت اختیار کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ’’ انتخاب‘‘ کو مکران ڈویژن کا سب سے مقبول اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 

بلوچستان اس صدی کے آغاز سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ مذہبی انتہاپسندوں نے کوئٹہ شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات ان مذہبی انتہاپسندوں کے دباؤ کا شکار ہیں مگر بلوچستان ایکسپریس، روزنامہ آزادی اور روزنامہ انتخاب نے مذہبی دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کسی قسم کے دباؤ کو قبو ل نہیں کیا اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی۔

پھر آزادی کا نعرہ لگانے والے جنگجو گروپوں کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کی مگر صحافت کے مسلمہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر خبریں شائع کیں۔ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اداریوں میں آواز اٹھائی مگر یہ اخبارات موجودہ صورتحال میں سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ 

ایک طرف جنگجو گروپوں کی دھمکیوں کی بنیاد پر اخبارات کی تقسیم رکی ہوئی ہے تو دوسری طرف حکومت ان اخبارات کو مفلوج کرنے کے لیے وہ حربے استعمال کرنا شروع کردئیے ہیں جو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں استعمال کیے جاتے تھے۔ 

ان اخبارات کے اشتہارات کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ اخبارات کے ایڈیٹروں کو سول اور عسکری افسروں کے سامنے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں بیشتر پریس کلب بند ہوچکے ہیں۔ 

خضدار پریس کلب ملک کا واحد کلب ہے جس کے صدور اور سیکریٹری جنرل ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے اور کئی اراکین بھی نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ گزشتہ دنوں گوادر پریس کلب کی ایک تصویر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنی۔ 

اس تصویر میں عسکری دستوں نے کلب کی عمارت کو گھیرا ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان آزاد اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کرنے کی دھمکی ان اخبارات کے ایڈیٹروں کو پہنچا دی گئی ہے۔ بلوچستان میں پریس ایڈوائس کے ذریعے خبروں کی اشاعت رکوانے اور مخصوص نوعیت کی خبروں اور تصاویر کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ 

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان آزاد اخبارات کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس ملک کی تاریخ اخبارات پر پابندیوں اور صحافیوں کی قیدوبند کی تفصیلات سے پر ہے۔ 

عظیم شاعر فیض احمد فیض کو 1948ء میں ’’روزنامہ امروز‘‘ میں ایک خبر کی اشاعت پر پہلی دفعہ تھانے کچہری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھرپی پی ایل کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہال پر قبضہ سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور میں صحافیوں کو کوڑے مارنے ، اخبارات کو بند کرنے، اخبارات پر سنسرشپ عائد کرنے، اور اخبارات کو اشتہارات اور نیوز پرنٹ سے محروم کیا گیا مگر صحافیوں کی گرفتاریوں اور اخبارات کی پابندیوں سے ان کی بندش کا نقصان پاکستان کی ریاست کو ہوا۔ 

اس ملک کا اکثریتی حصہ علیحدہ ہوگیا، چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا اور اس احساس محرومی کے اثرات اتنے گہرے ہوگئے کہ جمہوری نظام کے قیا م کے باوجود صوبوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوگیا۔ آزادئ صحافت بنیادی طور پر عوام کا حق ہے۔ 

عوام کو آزادئ صحافت کے ذریعے ریاستی اداروں کے معاملات کا علم ہوتا ہے اور اسی طرح جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے، یوں عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ بلوچستان کے اخبارات کی آواز دبانے سے وہاں کے عوام اور پاکستانی ریاست کا تعلق مزید کمزور ہوجائے گا۔