|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2017

انسانی اسمگلنگ کامسئلہ نیا نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر جس طرح تربت میں انسانیت سوز واقعہ پیش آیا یقیناًیہ نوجوان اس سے بالکل ہی بے خبر تھے کہ ان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ منزل میں آنے والی وہ رکاوٹیں تھیں جو سفر کے دوران انہیں پیش آنے تھے۔ 

انسانی اسمگلنگ کا جال پاکستان سے لیکر یورپ تک پھیلا ہوا ہے ، ملک کے دیہی وشہری علاقوں میں ایجنٹ حضرات یہ کام کرتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں کہ فلاں ملک پہنچتے ہی ان کے سارے مسائل حل ہونگے اور دولت کی فراوانی ہوگی جس سے زندگی کی ہر آسائش خریدی جاسکتی ہے۔

پھر بے روزگار یا کم آمدنی والے نوجوان ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں اور انہیں بھی یقین ہوجاتا ہے کہ منزل پر پہنچنے کے بعد وہ اپنا اوراپنے گھر والوں کی زندگی بدل کر رکھ دیں گے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ ایک گڈ سیلر کی طرح نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح مختلف کمپنیاں اپنے سیلرز کو بڑھانے کیلئے زیادہ فائدہ اور بہترپُرکشش اعلانات کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے۔

انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے مختلف گروہ ہیں اور ان کے الگ الگ علاقوں میں باقاعدہ بندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ بلوچستان سے ایران ،ترکی پھر یورپ کے مختلف ممالک کی طرف جانے کا راستہ دہائیوں سے استعمال کیاجارہا ہے جس میں صرف پاکستانی شہری نہیں بلکہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں جو اپنی جمع پونجی سمیت زندگی داؤ پر لگاکر ایک نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ 

پنجاب،سندھ،کے پی کے سے ایجنٹ انہیں بلوچستان تک پہنچاتے ہیں جس کے لیے مسافر کوچز کا استعمال کیا جاتاہے۔ اگرکہیں خطرہ محسوس ہوتو انہیں سامان سے لدھے کنٹینرز میں ڈال کر سرحدی علاقوں تک پہنچایاجاتا ہے۔ایسی اذیت ناک سفر کے دوران ان میں سے اکثریت کی موت واقع ہوتی ہے اور ایسے دلخراش واقعات اخبارات میں رپورٹ بھی ہوئے ہیں۔ 

بعض اوقات یہ گرفت میں آجاتے ہیں مگر اس دوران حراست میں لئے گئے افراد سے زیادہ سختی سے پوچھ گچھ نہیں کی جاتی بس صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ انہیں کس طرح اور کس نے یہاں تک پہنچایا ہے ۔اس کے بعد صرف اتنی کاروائی ہوتی ہے کہ اتنے افراد غیر قانونی طور پر ایرانی بارڈر پار کرتے ہوئے پکڑے گئے جنہیں حراست میں لیکر مقامی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا۔ 

اس کے بعد انہیں ایک دو روز میں ایف آئی اے کے حوالے کیاجاتا ہے بعدازاں انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے جہاں انہیں شخصی ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے۔ اگر اسی دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے تفتیش میں سختی برتتے ہوئے حراست میں لئے گئے افراد سے پوچھ گچھ کریں توانسانی سمگلروں کے ایجنٹوں تک بہ آسانی پہنچا جاسکتا ہے ، اس طرح انسانی جانوں کے بڑے نقصان سے بچاجاسکتا ہے مگر افسوس ایساہوتا نہیں ۔ 

اور نتیجے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اب تک اپنے قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور نہ جانے کتنے ماؤں کے جگر انہی ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر راہی عدم ہوچکے ہیں۔ یہاں مسئلہ بنیادی طور پربے روزگاری یا پھر معاشی تنگ دستی کا ہی ہے مگر اس اہم اس مسئلے کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ آج بھی تارکین وطن ترکی سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں انتہائی سخت ترین زندگی گزاررہے ہیں کیونکہ وہاں بھی انہیں سخت ترین قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اس لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور بہترین مستقبل کا خواب دکھانے والے انسانیت کا سودا کرنے والے ایجنٹوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کے نیٹ ورک کو توڑا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ پھر اس طرح کا دلخراش انسانی المیہ سامنے نہ آسکے۔