وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ سی پیک کا منصوبہ نہ صرف گوادر اور بلوچستان بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں کے لیے ترقی و خوشحالی کے عظیم دور کی نوید لے کر آیا ہے۔
ہم اس منصوبے کی راہ میں حائل تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور اپنے جوانوں کے خون کا نذرانہ دے کر اس پودے کی آبیاری کر رہے ہیں۔چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ہمارے لیے مستقبل کی تعمیر میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے، یہ منصوبہ چین کے عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے جو چینی قیادت کے بین الاقوامی وژن کا آئینہ دار ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ 15 ارب روپے کی خطیر لاگت کا یہ منصوبہ گوادر بندرگاہ کو کوسٹل ہائی وے سے منسلک کرے گا۔
19کلومیٹر طویل اس ایکسپریس وے کی تکمیل سے ہر قسم کی ٹریفک کو گوادر بندرگاہ تک آسان رسائی ملے گی۔
سی پیک میں شامل گوادر کے جن منصوبوں پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، ان کی تکمیل سے گوادر مستقبل میں صنعتی اور تجارتی حوالے سے ایک جدید پورٹ سٹی بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے میں گوادر کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اپنے گہرے پانی کی بندرگاہ کے باعث گوادر خطے کی تمام بندرگاہوں میں منفرد مقام رکھتا ہے۔
اقتصادی راہداری کے ابتدائی منصوبے اپنی تکمیل کے اہم مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، پاکستان اور چین کا یہ طویل المدتی منصوبہ دو طرفہ اقتصادی تعاون کو نئی جہت سے روشناس کرائے گا اور سماجی رابطوں کو بھی وسعت اور نئی بلندی ملے گی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرتے ہوئے اسے راہداری کے دیگر روٹس کے ساتھ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
اقتصادی راہداری کو صرف گزرگاہ کی سہولت کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ بلوچستان میں صنعتی زونز اور اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کے ذریعے صوبے کے قدرتی وسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ موجودہ بنیادی ڈھانچے کو راہداری کے ساتھ منسلک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کا ذریعہ معاش زراعت اور مالداری سے وابستہ ہے ان دونوں شعبوں کی ترقی سے بلوچستان کے عوام کو بہتر روزگار مل سکتا ہے۔
اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ بلوچستان کے 10 سے 12 ضلعی ہیڈکوارٹروں سے گزرے گا جو صوبے کے بڑے پیداواری مراکز بنیں گے اگر ان شہروں کو صحیح معنوں میں ترقی دی جائے تو اس سے بہتر معاشی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر کو اس وقت پانی کی کمی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے، صوبائی حکومت اپنے وسائل سے اس مسئلے کو عارضی بنیادوں پر حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاہم مسئلے کے دیرپا حل کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔
گوادر میں بڑے ڈی سیلینیشن پلانٹ اور میرانی ڈیم سے پائپ لائن کے ذریعے گوادر کو پانی کی فراہمی سے اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے وزیراعظم سے گزارش کی کہ ان منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت مدد کرے۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ نے ایسٹ بے ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مختلف وفود کے ہمراہ ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔
اس موقع پر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وفاقی و صوبائی وزراء، اراکین سینیٹ و اسمبلی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ ، سول و عسکری حکام، معتبرین، اعلیٰ چینی حکام اور لوگوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ گوادر اس وقت عالمی شہرت یافتہ شہر کی حیثیت سے متعارف ہورہا ہے لیکن دوسری طرف ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسی گوادر کے باسی پانی کے ایک ایک بوند کے لیے ترس رہے ہیں اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔
جب عالمی برادری اس صورتحال کو دیکھتی ہے تو کیا سوچتی ہوگی کہ گوادر کی حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ وہاں پینے کو پانی نہیں تو وہاں اتنے بڑے بڑے منصوبے کس کے لیے بن رہے ہیں۔
پانی زندگی ہے جب گوادر میں پانی نہیں توزندگی کیسی ہوگی؟لہذا اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت بھی اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائے۔
پیاسے گوادر کی پیاس بجھائیں تاکہ لوگوں کے چہروں پر شادابی نظر آئے اور اہل پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی یہ پیغام جائے کہ گوادر میں پانی بھی ہے زندگی بھی ہے۔