|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2017

کوئٹہ : صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہاہے کہ موجودہ حکومت نے صوبے میں توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات پر بھرپور توجہ دی ہے تاکہ پیدائش سے لیکر 23مارچ کے عمر کے بچوں کو وبائی امراض سے بچایاجاسکے ۔

ہماری کوشش ہے کہ ہر یونین کونسل اور گاؤں کی سطح تک ویکسینیٹرز اور دیگر سہولیات کو باہم پہنچایاجائے تاہم وبائی امراض ہو یا کوئی اور مسئلہ کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کے حل کیلئے حکومت ،بیوروکریسی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کوششیں نہ کرے ہم نے حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبے میں حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح صرف16فیصد تھی اب یہ 60فیصد کے لگ بھگ ہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں روٹین ہیومنائزیشن ان بلوچستان کے عنوان سے منعقدہ آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس سے قبل ڈاکٹر اورنگزیب کمال ،توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات کے ڈپٹی صوبائی پروگرام منیجر ڈاکٹر اسحاق پانیزئی ،ڈاکٹر سمیع اللہ ،ذوہیب قاسم نے سیمینار کے شرکاء کو توسیعی پروگرام برائے ٹیکہ جات سے متعلق بریفنگ دی اور بتایاکہ توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات پر سابقہ ادوار میں صحیح توجہ نہ دئیے جانے کے باعث بلوچستان میں ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ۔

ہرسال پاکستان میں 28ہزار بچے نمونیا،20ہزار بچے خسرہ ،ڈھائی لاکھ بچے اسہال جیسے وبائی امراض اور دیگر بیماریوں کے باعث موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں تاہم موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تونہ صرف ای پی آئی کے سالانہ بجٹ کو 20لاکھ سے 70کروڑ25لاکھ روپے تک بڑھایاگیا بلکہ پروگرام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس میں جنگی بنیادوں پر اصلاحات کئے گئے اب 9کی بجائے 10بیماریوں کے حفاظتی ٹیکہ جات بچوں کو لگائے جائینگے ۔
جن میں ایک سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے روٹا پولیو اور ٹی بی سے بچاؤ کی ویکسین سمیت خناق ،کالی کھانسی ،کالا یرقان ،تشنج ودیگر شامل ہیں ،انہوں نے کہاکہ بچوں کو خسرے اور گردن توڑ بخار سے بچانے کے ٹیکے بھی لگائے جارہے ہیں ۔
ان کاکہناتھاکہ سال رواں کے دوران اب تک بلوچستان میں 75بچے خسرے کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں تاہم جن اضلاع میں خسرے کی وباء پھیلی وہاں فوری طورپر خسرے سے بچاؤ کے ٹیکہ جات کے مہمات چلائے گئے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ہر ہزارہ میں سے 111بچے بلوچستان میں 5ویں سالگرہ سے قبل میں موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں جن میں سے 60فیصد بچے وہ ہے جنہیں حفاظتی ٹیکہ جات نہیں لگائے جاتے انہوں نے کہاکہ تشنج سے بچاؤ کیلئے 15سال سے لیکر 49سال کی عمر تک کی خواتین کو 5انجکشن لگانا ضروری ہے اس کے بعد زچگی کے دوران بچے اور ماں کو تشنج کی بیماری لاحق نہیں ہوسکتی ۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کی کوششوں کی بدولت حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح 16فیصد سے بڑھ کر60فیصد تک جا پہنچاہے جو بڑی کامیابی ہے اس سلسلے میں مزید بھی کوششیں جاری ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکہ جات پر مامور ٹیموں کو نہ صرف سفری سہولیات دی جارہی ہے بلکہ بہترین کولڈ چین بھی بنادیاگیاہے ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کاکہناتھاکہ میڈیا کا ہمیشہ سے ہی معاشرے کی بہتری کیلئے کردارانتہائی زبردست رہاہے ہم نے محکمہ صحت میں انقلابی اصلاحات کیلئے حتیٰ الوسیع کوششیں کی ہے تاہم دہائیوں کی خرابیوں کو چندسال میں ٹھیک کرناممکن نہیں ہوا کرتا۔
بلوچستان میں ہمارے پاس ترقیاتی بجٹ انتہائی کم ہواکرتاہے اس لئے بی ایچ اوز سمیت ہسپتالوں کی حالت زار کوصوبے بھر میں ایک دم ٹھیک کرناممکن نہیں ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایک ویکسینیٹر تقریباََ760کلومیٹر علاقے میں موجود بچوں کو حفاظتی ٹیکہ جات لگوانے کاپابند ہوتاہے ۔
اس لئے اس سلسلے میں ہمیں مشکل پیش آتی تاہم اب ویکسینیٹرز کی کمی کو دور کیاجارہاہے بلکہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے بھی بہتری لانے کی کوششیں کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ ہم نے نہ صرف ماڈل کولڈ سٹور بنایاہے بلکہ ہمارے کولڈ چین کی مثالیں ملک بھر میں دی جارہی ہے ۔
ان کاکہناتھاکہ ویکسین کو موسمی اثرات سے بچانے کیلئے نہ صرف مخصوص گاڑیاں فراہم کی گئی ہے بلکہ 426آئی ایل آر سولر اور 30الیکٹریکل آئی ایل آر سسٹمز بھی دئیے گئے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ 16فیصد سے حفاظتی ٹیکہ جات کے تناسب کو 50فیصد تک لے جانا آسان کام نہ تھا ،انہوں نے کہاکہ نصیرآباد ،جعفرآباد اور ڈیرہ اللہ یارمیں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کے مخدوش ہونے سے متعلق تاثر من گھڑت اور بے بنیاد ہے ۔
کسی بھی شعبے میں بہتری صرف ایک سرکاری محکمے کا کام نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کیلئے آفیسران سمیت عماشرے کے ہرفرد کو کرداراداکرناپڑتاہے انہوں نے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ میڈیا کی جانب سے کلی آگاہی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔