کوئٹہ: سابق وزیراعلیٰ و گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دونوں فریقین کو شائستگی ، جمہوری اصولوں ، اخلاقی قدروں اور بلوچستان کی قبائلی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس جمہوری عمل کومنطقی انجام تک پہنچانا چا ہئے ۔
ہمیں اس عمل کو سیاسی ، ذاتی جھگڑا یا عداوت کا مسئلہ بنانے کی بجائے سیاسی مسئلے کے طور پر خوش اسلوبی سے حل کرنا چا ہئے تاکہ ہم ملک بھر کے لو گوں کو بلوچستان کے حوالے سے ایک مثبت روایات کا نمونہ پیش کر کے صوبے کو بہتر طور پر پیش کر سکے نہ کہ منفی عمل کے ذریعے غلط تاثر کو دنیا کے سامنے لا سکے ۔
’’ آن لائن‘‘ سے خصوصی گفتگو کر تے ہوئے نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کو دونوں فریقین کی جانب سے کوئی بھی ایسا عمل یا رد عمل نہیں دینا چا ہئے کہ جس سے بلوچستان کی قبائلی حیثیت اور منتخب عوامی نمائندوں کی عزت اور یہاں پر بسنے والے لاکھوں لو گوں کی دل آزاری ہو اور ان کا غلط تاثر دنیا بھر میں جائے ۔
کیونکہ بلوچستان جو کہ قبائلی صوبہ ہے جہاں پر بسنے والے تمام قبائل اور اقوام کی اپنی اپنی حیثیت اور مقام ہے اور جمہوری عمل میں سیاسی حکمت عملی کو مضبوط بنانے کے لئے جمہوری حسن کو پروان چڑھانے کی خاطر کسی بھی رکن اسمبلی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک یا پھر تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتا ہے ۔
وزیراعلیٰ سمیت حکومت کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ جمہوری اقتدار اور اصولوں کے مطابق مذکورہ تحریک کو ناکام بنانے میں شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو ذاتی جھگڑا یا عداوت نہ سمجھے بلکہ اسے سیاسی مسئلہ سمجھتے ہوئے خوش اسلوبی سے اپنی اکثریت ظاہر کر کے تحر یک عدم اعتماد کو ناکام بنائیں اسی طرح تحریک پیش کرنے والے کو بھی چا ہئے کہ اپنی تحریک پیش کر تے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں بلکہ خوش اسلوبی سے مقابلہ کریں ۔
تاکہ معاشرے ، صوبے اور ملک بھر میں بلوچستان کے دو نوں فریقین کا مثبت عمل سامنے جا سکے اور اس وقت پاکستان بھر کے لو گوں کی نظریں بلوچستان کے سیاسی بحران کے حوالے سے صوبے پر مرکوز ہیں اور میڈیا کے توسط سے ہر چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے دل بڑا رکھنا چا ہئے اگر کوئی تحریک عدم اعتماد پیش کر تا ہے تو ممبران سے ان کی سیکورٹی کو واپس لینا یا انتظامی آفیسران کو تبدیل کر کے ان کے خلاف انتقامی کا رروائی کرنا جیسے عمل معاشرے میں مثبت تاثر پیش نہیں کر تے بلکہ اسے انتقامی کا رروائیوں سے تعبیر کیا جا تا ہے جس سے حکومت اور وزیراعلیٰ کے بارے میں اچھا تاثر پیدا نہیں ہو تا جس طرح کا بینہ سے کسی بھی نمائندے کو برخاست کر دیا جائے ۔
حکومت کو اس سیاسی ، جمہوری عمل پر بڑے دل کا مظاہرہ کر تے ہوئے مقابلہ کرنا چا ہئے اور اس کو ناکام یا کامیاب بنانے میں بلوچستان کی روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا چا ہئے نہ کہ اس کو ذاتی یا قبائلی جھگڑا قرار دینا چا ہئے کیونکہ آنیوالے انتخابات میں جو نوجوان نمائندے یا نئے چہرے سیاست میں یا پھر پارلیمنٹ میں پہنچیں گے ۔اس طرح کے اقدامات ان پر کیا اثر چھوڑینگے پھر وہ موجودہ حکومت اور دوسرے نمائندوں سے متعلق کیا رائے قائم کرینگے ۔
انہوں نے کہا کہ دونوں طریقین اس جمہوری عمل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرینگے اور ناکام ہونے یا کامیابی کے بعد ایک دوسرے سے دلی عداوت کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کے گلے مل کر اچھی رائے اور تاثر عوام تک پہنچانا چا ہئے تاکہ جمہوریت کی مضبوطی کی صورت میں مثبت پیغام لو گوں تک پہنچے اورتاکہ بلوچستان کے لو گوں کے بارے میں وسیع النظر اور وسیع القلبی کا تاثر جائے اور وہ سمجھے کہ سیاسی عمل پر اور سیاسی بحران کے حل میں حکومت اور مخالفین نے جس انداز میں اس بحران پر خندہ پیشانی سے مقابلہ کر تے ہوئے تحریک کو نمٹایا یا اس کا مقابلہ کیا ہے مثبت پیغام جائے گا ۔
کیونکہ بلوچستان جو کہ قبائلی صوبہ ہے جہاں پر ماضی میں بھی بلوچستان کے منتخب نمائندوں ، سیاسی رہنماؤں یا قبائلی شخصیات میں کوئی اسی مثال نہیں ملتی کہ انہوں نے قبائلی دشمنیوں، رنجشوں اور عداوت کے باوجود اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ اپنی تقاریر میں ایسے الفاظات کا چناؤ کیا ہے کہ جس سے معاملات کو بہتر بنانے اور آگے بڑھنے میں مدد ملی حالانکہ دوسرے صوبوں میں اسمبلیوں میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے گالم گلاچ سمیت غلط زبان استعمال کی جاتی ہے ۔
ہمیں اپنی روایات پر عمل درآمدکرنے کے لئے پختگی کیساتھ آگے بڑھنا ہو گا تاکہ ہم قبائلی رنجشون اور دشمنیوں کے باوجود شائستگی اور بھائی چارگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں بلکہ جمہوریت کے استحکام اور بلوچستان کا پاکستان سمیت دنیا بھر میں وقار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ قبائلی معاشرے کا بھی ایک مثبت چہرہ لوگوں کے سامنے روشناس کراسکتے ہیں اور ایسا عمل کریں جس سے لوگ صدیوں یاد رکھتے ہوئے اس کی مثال دیں جو ہماری نیک نامی کا باعث بن سکے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہ اچھال کر دونوں مخالفین اقدار کے پرچار کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کریں کہ جس سے ہمیں آنیوالے وقت یا نسلوں کے سامنے شرمندگی کا باعث بننا پڑے ۔
ایک سوال کے جواب میں نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران یا تحریک کے حوالے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے میں بہت دور بیٹھا ہوا ہوں۔
ہاں میرا بھائی نوابزادہ طارق مگسی بلوچستان اسمبلی میں آزاد بینچوں پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ اپنے سیاسی فیصلوں میں آزاد اور خود مختار ہے وہ جو بھی کام کر تا ہے سوچ سمجھ کر کر تا ہے ۔