|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2018

کوئٹہ :  مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماء وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے رابطہ وزیر اعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے پر تعاون کر نے کی گزارش ،با وثوق ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بی این پی کے سربراہ سابق وزیر اعلی بلوچستان اور رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر مینگل سے رابطہ کیا ہے ۔

ذرائع نے بتا یا کہ طویل دورانیے تک جاری رہنے والی ٹیلی فونک گفتگو میں خواجہ سعد رفیق نے وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہر ی کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد پر تعاون کر نے کی گزارش کی تاہم سردار اختر مینگل نے اس معاملے میں تعاون کر نے سے معذرت کرلی ۔

دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ 9جنوری کو اسمبلی جاؤں گا اور وزیر اعلی کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی ہر صورت حما یت کر یں گے ۔

چار سالوں میں بلوچستان کے 156ار ب روپے کے فنڈز لیپس کر دئیے گئے سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ بیچے گئے ،نواز شریف کی طرح کچھ دن بعد کوئی اور پو چھے گا مجھے کیوں نکالا ؟،جو لوگ ناراض بلوچوں کو منانے گئے تھے ان سے پوچھوں کہ انہوں نے کیا کردار ادا کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟

جمہوری اژدھے نے آج تک بلوچستان کو کیا دیا ؟ یہ بات انہوں نے ہفتہ کے روز مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر ہمشیرہ اور مشیر انڈسٹریز سردار در محمد خان ناصر کی والدہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کہی ۔

اس موقع پر پارٹی کے مرکزی جنرل سیکر ٹری سینیٹر ڈاکٹر جہا نزیب جمالدینی، سینئرنا ئب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ،احمد نواز مینگل ،ثناء بلوچ و دیگر بھی انکے ہمراہ تھے ۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ اپوزیشن کی ہر وقت کوشش رہی ہے کہ حکومت کی غلط کاریوں ، نااہلیوں ،دور اقتدار میں جو بھی منفی کام سرانجام ہوئے ہیں انکو لوگوں تک پہنچایا جائے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنا وہ جمہوری حق ادا کرتے ہوئے جمہوری طرز عمل کو اپناتے ہوئے تحریک پیش کی ہے امید تو یہ ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہونگے آگے اللہ کی مرضی ہے ۔

اگر یہ غیر جمہوری عمل ہے تو یہ آپکے اسمبلی کے رولز آف بزنس ہے میں کیوں ہے ؟اس کا مطلب اسمبلی کے جو رولز ریگولیشن ہیں وہ بھی غیر قانونی ہیںیہ جمہوری عمل ہمارا حق ہے یہ جمہوری حق ہمیں اس ملک کے آئین اور اسمبلیوں نے دیا ہواہے اور ہم اپنا حق ادا کرتے رہیں گے اس میں اگرکوئی اور قوتیں ملوث ہیں تو ان سے پوچھا جائے ۔

انہوں نے کہا نواز شریف مجھ سے بھی زیادہ بے بس ہیں پچھلے ادورا میں وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا ابھی کوئی او رکہہ گا مجھے کیوں نکالا ہم نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہے ہیں اور نہ ہیں یہ جمہوری عمل ہے جس کا ہم حصہ بنے ہیں اور بنتے رہیں گے ۔

اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات ان سے پوچھیں جو ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی بے ساکھائیوں پر کھڑے ہیں انکی قوت سے الیکشن میں آتے ہیں اور اقتدار حاصل کر تے ہیں ہم نہ اقتدار میں ہیں اور نہ اقتدار کے نزدیک ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سردار یعقوب ناصر مجھ سے بھی زیادہ بے بس ہیں جن کیلئے وہ گزاراشات کررہے ہیں انہی لوگوں نے انہیں سینیٹ کے انتخابات میں ہرایا تھا ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات دیرینہ اور بہت اچھے بھی رہے ہیں ہم جیسے غریبوں کی ان پر بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں مجھے بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کا شوق نہیں ۔

صاحب اقتدار لوگوں کی وجہ سے امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے ہیں انکی کسی فرمائش پر انکار کیاہوگا جس کی وجہ سے تعلقات خراب ہوگئے جب ہماری داخلی و خارجی پا لیسیاں اور بجٹ کوئی اور بنائے گا تو ہم کیسے تعلقات ٹھیک رکھ سکتے ہیں ۔

اگر پاکستان نے اپنے تعلقات بہتر کرنے ہیں تو دوسروں کی بے ساکھیاں پھینکنی ہوں گی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا انہوں نے کہا کہ جمہوری اژدھے نے ملک کیلئے آج تک کچھ کیا ہے جس طرح سے یہاں کے وسائل لوٹے گئے چار سالوں 156ارب روپے کے فنڈ لیپس ہوئے اسکی کبھی چھان بین یا پوچھ گچھ ہوئی؟

سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی اراکین نے ووٹ بیچے کسی نے پوچھا ؟قبائلی جھگڑوں میں یہی حکومت فریق بن رہی تھی اور اس کو ہوا دے رہی تھی جمہوریت صرف وہاں پر ہے جہاں حکومت خطرے میں ہو ؟کیا بلوچستان کے عوام کا جمہوریت میں حق نہیں ؟

انہوں نے مزید کہا کہ اگر تحریک کو آگے چل کر غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں استعمال کیا جارہاہوا تو ہم اس تحریک کی مخالفت میں بھی سرفہرست ہونگے ۔

ناراض بلوچوں سے بات چیت میں کردار ادا کر نے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ ناراض بلوچوں کو منانے گئے تھے ان سے پوچھوں کہ انہوں نے کیا کردار ادا کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا جو بااختیار ہے جب وہ بے اختیار ہو تو میں کیا کردار اد اکرسکتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں رکنے چائیں بلوچستان میں پہلے بھی 1998 میں عدم اعتماد کی تحریک آئی تھی جو واپس لی گئی تھی او ر اس سے ہماری پارٹی میں جو دراڑ پڑی تھی اس کا فائدہ آج کی حکومت اٹھا کر اپنے ہی منظور نظر لوگوں کو اقتدار میں لایا تھا اور ہمارے لوگوں کو توڑ کر اس حکومت کا حصہ بنی تھے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سینیٹ کے انتخابات کی جہاں تک بات ہے میرے خیال سے اس تحریک سے نہیں رکنے چائیں9 تاریخ کو بالکل ہم اسمبلی میں جائیں گے اور تحریک کی حمایت کریں گے اگر ہماری ضرورت محسوس کی گئی تو اس میں شامل ہوجائیں گے ۔

اگرہمارے نیک کام سے یہ کرپٹ اور بدعنوان حکومت اور جس پر اربوں روپے کی کرپشن ثابت ہے ،جس پر لوگوں کی مسخ شدہ لاشوں کی ذمہ داری بنتی ہے جس پر بلوچستان کے امن وامان کی صورتحال امن وامان، ٹارگیٹ کلنگ ، قبائلی رنجشوں کی ذمہ داری بنتی ہے اور حکومت کا اس میں ایک اہم رول ہے ۔

اگر ہمارے اس سے ہاتھ رکھنے سے وہ گرتی ہے تومیرے خیال میں یہ بھی ایک جمہوریت کا حسن ہے ۔ انہوں نے کہابی این پی کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی او راگر بنے گی بھی اس کیلئے ہمارے ادار ے موجود ہیں لیکن موجودہ حکومت جو ایک تبدیلی کی طرف جارہی ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے یہ فیصلہ کیاہواہے کہ ہم اس تحریک عدم اعتماد کے حصہ دار ہونگے لیکن کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے ،انہوں نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری سے پو چھیں کے انکے پاس کتنے ساتھی رہ گئے ہیں ۔

میری پچھلے دس سال سے ان کیساتھ ملاقات نہیں ہوئے ہے اور جو انکے دائیں با ئیں کیلکیو لیٹر رکھ کر بیٹھے ہیں ان سے پوچھیں کہ اکثر یت ساتھ ہے یا نہیں ، سوشل میڈیا پر انکے خلاف تنقید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ تنقید کر رہے ہیں ان سے پو چھیں کہ سرفراز اور قدوس پہلے ان کیساتھ تھے ۔

ان سے پوچھوں وہ ابھی بھی آپ کے اتحادی ہیں وہ ہمارے پارٹی کے اتحادی تو نہیں ہیں ہم تو اس کی تحریک کا حصہ بنے جو ایک جمہوری عمل ہے چار سالوں سے نہ آپکو قدوس نظرآیا نہ سرفراز نظریا آیا نہ محمود نظر آیا ۔