پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی امداد کی معطلی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عزم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، پاکستان کبھی بھی پیسے کے لیے نہیں بلکہ امن کے لیے لڑا ہے، سکیورٹی ضروریات پوری کرنے کے لیے سکیورٹی تعاون کے حوالے سے ہمارے آپشنز کھلے رہیں گے۔
غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے امریکی امداد پرا پنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ملنے والی سکیورٹی امداد کو روکے جانے کا پاک امریکہ سکیورٹی تعاون اور خطے میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر یقینی اثر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت دیگردہشت گردوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا۔ امریکی اقدامات کے خلاف پاکستانی جواب پاکستانی عوام کی توقعات کے عین مطابق ہو گا۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ ہم سیکیورٹی تعاون کے معاملے پر امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے مزید تفصیلات کے منتظر ہیں ۔
ترجمان نے کہا کہ مشترکہ اہداف کے حصول کیلئے امریکی فیصلے کا اثر وقت کے ساتھ زیادہ واضح انداز میں سامنے آنے کا امکان ہے تاہم اس امر کو سراہا جانا چاہئے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ زیادہ تر اپنے وسائل سے لڑی ہے جس پر 120 ارب ڈالر سے زائد رقم 15 سال کے دوران خرچ ہوئی ۔
ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے اور خطے کی وسیع تر استحکام کیلئے یہ عمل جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں۔ترجمان نے کہا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاک امریکہ تعاون سے امریکہ کے قومی سلامتی مفادات کو براہ راست فائدہ پہنچا اور یہ بین الاقوامی برادری کے وسیع تر مفاد میں تھی۔
اس سے القاعدہ کے خاتمے اور ان دیگر گروہوں سے لڑنے میں مدد ملی جومشکل سرحدی علاقے اور حکومتی عملداری کے بغیر علاقوں کا فائدہ اٹھا رہے تھے اور امن کیلئے مشترکہ خطرہ تھے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے انسداد دہشتگردی کے بڑے آپریشنز کے ایک سلسلہ کے ذریعے ان تمام علاقوں کو کلیئر کرایا جس کے نتیجہ میں منظم دہشتگردوں کی موجودگی کاخاتمہ ہوا اور پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امن کیلئے ہماری کوششوں کا افغانستان کی جانب سے ویسا ہی جواب ملنے کا انتظار ہے ۔ان میں سرحد پر افغان سائیڈ پربغیر حکومتی عملداری کے علاقے،دو طرفہ بارڈر مینجمنٹ، افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی ، پوست کی کاشت کی روک تھام ، منشیات کی اسمگلنگ اور افغانوں کی قیادت میں سیاسی مفاہمت جیسے امور شامل ہیں ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پائیدار امن کی غرض سے اقدامات کو باہمی احترام اور اعتماد کے ساتھ ساتھ تحمل اورتسلسل کی ضرورت ہے ۔ افغانستان میں داعش جیسے نئے اور مہلک گروہوں کا ابھرنا بین الاقوامی تعاون بڑھانے کا تقاضہ کرتا ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ یکطرفہ بیانات اورچیک پوسٹس کی منتقلی مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے عمل میں نقصان دہ ہیں ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سول وعسکری قیادت نے دوٹوک جواب میں اب اپنا بیانیہ دیدیا ہے اور اس کے ساتھ ہی تعلقات کی بہتری کیلئے آپشنز کو بھی کھلا رکھا ہے تاکہ غلط فہمیاں جہاں سے بھی پیدا کی جارہی ہیں ان کو دور کیاجاسکے جس کا فائدہ امن کے قیام کیلئے ہوگا ۔
پاکستان کی ہمیشہ اولین ترجیح امن رہا ہے پیسے کیلئے پاکستان نے جنگ میں حصہ نہیں لیا ، دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا اتحادی بن کر اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ۔ پاکستان آج بھی خطے میں دیرپا امن واستحکام خوشحالی کیلئے کوشاں ہے۔