|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2018

پنجاب کے شہر قصور میں کمسن زینب کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔اس لرزہ خیز واردات کے بعد پورا شہر سراپا احتجاج بن گیا، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے۔

بچی کی نماز جنازہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی، جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ‘ننھی زینب کا قتل انسانیت کی تذلیل ہے’۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ‘چار دن گزر گئے لیکن قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا، حکومت لوگوں کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہے اور اسے اب اقتدار کا کوئی حق نہیں ہے،ننھی زینب کو خواجہ زامل قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔پولیس کے مطابق قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ زینب 4 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔پولیس کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی۔

پولیس کی جانب سے کمسن زینب کے اغواء ، زیادتی اور قتل میں ملوث مبینہ ملزم کا خاکہ جاری کردیا گیا۔اس سے قبل ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد نے نیوز چینل سے گفتگو میں بتایا کہ شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش جاری ہے جبکہ بچی کے لواحقین نے بھی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے۔ڈی پی او کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچی کو ملزم کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ بچی کے والدین عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے جو واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد واپس آئے ہیں۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ‘مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کے شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘قصور کے واقعات پر 5 ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی ہے جبکہ 67 افراد کا میڈیکل چیک اپ کروایا جاچکا ہے’۔آر پی او شیخوپورہ رینج ذوالفقار حمید نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ بچی کی موت زیادتی کے بعد گلا دبانے کے نتیجے میں ہوئی اور اس واقعے پر ہر کوئی سوگوار ہے۔

آر پی او نے اس تاثر کو رد کردیا کہ پولیس نے واقعے کے بعد تفتیش میں غفلت کا مظاہرہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ بچی کے اہلخانہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی اور اہل محلہ نے بھی معاونت کی، لیکن پولیس کی غفلت کا تاثر درست نہیں۔

آر پی او کے مطابق علاقے میں نصب درجنوں سی سی ٹی کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لینا ایک مشکل کام ہے، لیکن پولیس نے کافی دور تک جاکر سرچ کیا، فوٹیجز دیکھیں اور پھر اس میں سے متعلقہ فوٹیج نکالی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سیکیورٹی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کیے ہیں۔

آر پی او کے مطابق ڈی این اے کے 96 نمونے ٹیسٹ کے لیے بھجوائے گئے، جن میں سے 5 کیسز ایسے ہیں جہاں ہمیں شک ہے کہ ڈی این اے ایک جیسا ہے۔

بچی کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔لوگوں نے سڑکیں بلاک کردیں اور مارکیٹیں بھی بند کردی گئیں۔جگہ جگہ پولیس کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے اور فیروز پور روڈ پر مظاہرین نے پولیس کو دھکے بھی دیئے۔

بعدازاں مشتعل احتجاجی مظاہرین قصور میں فیروز پور روڈ پر ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ کر اندر گھس گئے، مشتعل مظاہرین نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور پتھراؤ کیا اور پولیس موبائلوں کے شیشے توڑ دیئے۔

حالات کشیدہ ہونے پر پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوگئے، جن میں سے 2 افراد بعدازاں دم توڑ گئے۔شہریوں کا کہنا تھا کہ قصور میں ایک سال کے دوران 11 کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا، لیکن پولیس ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔

ترجمان حکومت پنجاب نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں بتایا کہ قصور میں مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے چاروں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔ترجمان حکومت پنجاب کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایڈیشنل آئی جی ابوبکرخدا بخش کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران بھی ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو عہدے سے ہٹاکر او ایس ڈی بنادیا ہے جبکہ ان کی جگہ زاہد نواز مروت کو ڈی پی او قصور لگا دیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ انکوائری کی نگرانی وہ خود کریں گے۔

کمشنر لاہور عبداللہ سنبل کا کہنا ہے کہ قصور میں حالات کشیدہ ہونے پر رینجرز کو طلب کرلیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر قصور کی سرکاری رہائشگاہ کا گھیراؤ کر رکھا ہے جبکہ پولیس صورت حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد امان و امان قائم کرنے کے لیے رینجرز کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سفاکیت کی تمام حدیں پار کرنے والے درندہ صفت وحشی نما انسان جنہوں نے ایک معصوم سی کلی کے ساتھ یہ زیادتی کی وہ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔ زینب کے واقعہ سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے سماج میں اس طرح کا وحشی پن اور اس سے رونما ہونے والے واقعات کا تعلق یقیناًنفسیات وجنسی ہوس سے جڑا ہے مگر اس کیلئے ہمارے سماجی تبدیلی کے دعویداروں نے کس حد تک کام کیا کہ معاشرہ سدھرنے کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف جارہا ہے۔

اور پورا سماج اخلاقی دیوالیہ پن کا منظر پیش کررہا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے سماج کی تشکیل کیلئے سنجیدہ ہوجائیں جس سے ہمارے یہاں اس طرح کے حالات رونما نہ ہوں،

اس واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری از بس ضروری ہے اور انہیں پورے معاشرے کے سامنے عبرت کا نشان بنانا اس سے بھی زیادہ ضروری اس لیے ہے کہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا تدارک کیا جاسکے تاکہ پھر کوئی حوا کی بیٹی ایسے درندوں کا نشانہ نہ بنے۔