مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان اورمسلم لیگ (ق) نے 65رکنی ایوان میں5ارکان رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کے عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے نامزد کردیا۔
اپوزیشن جماعتوں جے یو آئی ، بی این پی ، اے این پی اور بی این پی عوامی نے بھی حمایت کی۔
ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد خالی ہونیوالی وزیراعلیٰ بلوچستان کی نشست پر نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے آج بروز ہفتہ 13جنوری 2018ء صبح 10بجے صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوگا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے میرجان محمدجمالی نے کہاکہ میر عبدالقدوس بزنجو کو متفقہ طور پرو زیراعلیٰ بلوچستان کے منصب کیلئے نامزدکیا گیا ہے ۔
امید ہے کہ عبدالقدوس بزنجو نئے جذبے کے ساتھ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوکر بہتر انداز میں بلوچستان کے عوام کے مسائل حل کرینگے ۔
نامزد وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہاکہ میں اپنے سینئر دوستوں کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے مجھے وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیاہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی ہمارے سینئر ساتھی تعاون جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد تحریک کسی ذاتی رنجش کی بناء پر نہیں لایاگیابلکہ ہمارے ساتھیوں کا نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے لائی گئی۔
انہوں نے کہاکہ آج بھی وہ ہمارے لئے اتنے ہی قابل احترام ہیں جتنے پہلے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری پوری کوشش ہے کہ اسمبلی آئینی مدت پوری کرے۔
بلوچستان کے مسائل زیادہ ہیں جبکہ ہمارے پا س وقت کم ہے لہٰذاء اپنے سینئر ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کو بھرپور انداز میں حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔
جب ان سے پوچھاگیاکہ مسلم لیگ(ق) جو کہ وفاق میں اپوزیشن کاکرداراداکررہی ہے تو بلوچستان کے معاملے پر کیا وہ اپنے ساتھیوں کے مشورے کے پابند ہونگے یا پارٹی کے ،تو انہوں نے کہاکہ پارٹی اپنی جگہ بلوچستان کے مسائل اور عوام مجھے زیادہ عزیز ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم رائے شماری کیلئے نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے پاس بھی جائینگے ہماری کوشش ہوگی کہ تمام ساتھیوں کو ساتھ لیکر چلیں چونکہ بلوچستان کے مسائل اس وقت بہت زیادہ ہیں اس لئے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیکر فیصلے کرینگے ۔
میر جان محمدجمالی ،سردارصالح بھوتانی اور میر سرفرازبگٹی کاکہناتھاکہ ہمارے تمام ساتھیوں کی مشاورت سے میر عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیاہے اگر مخالف گروپ نے وزارت اعلیٰ کیلئے کسی کو نامزد کیا تو ہم ان کا بھرپورمقابلہ کرینگے ۔
انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد تحریک میں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے کئی ساتھیوں نے بھی ساتھ دینے کا وعدہ کیاتھا تاہم ان کے نام ظاہر نہیں کرسکتے ۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم اکثریت ثابت نہیں کرسکے تو مخالفین کا وزیراعلیٰ منتخب ہوگا ہم ان کے ساتھ بھی تعاون کرینگے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مخصوص سیاسی حالات ہیں ۔وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد تحریک سے 18ویں ترمیم پرعملدرآمد شروع ہوگئی ہے اب ہم اپنے فیصلے خود کرینگے جس میں وفاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔
عام انتخابات میں صرف544ووٹ لینے والے ایم پی اے کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے سے متعلق سوال پر سرفراز بگٹی نے کہاکہ میرعبدالقدوس بزنجو جس حلقے انتخاب سے جیتے ہیں وہاں10سال تک کوئی ڈپٹی کمشنر نہیں گیا ،انتخابات کے دوران پاکستان آرمی کے 4جوان بھی شہیدہوئے تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے ووٹ نہیں لئے تاہم یہ ٹرن آؤٹ پر ڈیپنڈ کرتاہے کہ کس علاقے میں کتنے ووٹرزہیں ۔
عبدالقدوس بزنجو اس حلقے سے پہلے بھی جیت کر آئے ہیں۔ ان کے والد بھی یہاں سے کئی بار کامیاب ہوئے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے بھی پاکستان مسلم لیگ(ن) کے منحرف اراکین اور مسلم لیگ(ق) کی جانب سے متفقہ طور پر نامزد وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ امید ہے کہ عبدالقدوس بزنجو بلوچستان میں سابقہ حکومتوں میں کرپشن کی تحقیقات اور محکموں کی حالت زار بہتر بنانے میں اپنا بھرپورکرداراداکرینگے۔
آج بلوچستان میں نئے قائد ایوان کا فیصلہ ہوگامسائل زیادہ، وقت کم اور وسائل کتنے ہونگے جنہیں بروئے کار لاکر بلوچستان کے مسائل حل کیے جاسکیں اس کا اندازہ نئے وزیر اعلیٰ کو بہت جلد ہوگا۔
دوسری جانب بلوچستان میں سیاسی ماحول نے ایک نیا رخ بھی لیا ہے جسے سیاسی بحران یا نئی تبدیلی سے جوڑنا کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ موجودہ تبدیلی بھی سابقہ حکومت میں شامل اراکین کی جانب سے لائی گئی ہے ۔
بلوچستان کو بحرانات سے نکالنے کا اعادہ جس طرح نامزد وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو نے کیا ہے اس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور اس کے ساتھ بلوچستان میں نئی سیاسی تبدیلی کا رخ بھی دیکھاجارہا ہے۔