|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2018

اوستہ محمد: اربوں روپے کی لاگت کا سیوریج منصوبہ رل گیا کھیر تھرکینال کی زیر کمانڈ اراضیات سے سیم و تھور کے اثرات کو ختم کرنے فصلوں میں کھڑے اضافی اور آلودہ پانی کے اخراج کے ملک گیر منصوبے میں بلوچستان کو مبینہ طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔

زرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے 14سال قبل میں 2004 رائٹ بنک آوٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) منصوبے پر کام شروع کیا تھا دریائے سندہ کی دونوں جانب سیوریج کے اخراج کے بڑے نالے بنا کر سیم ذدہ آلودہ پانی کو سمندر میں گرانے کا یہ منصوبہ خطیر لاگت سے شروع کیا گیا تھا جس میں بلوچستان سب سے چھوٹا اسٹیک ہولڈر ہے لیکن بد قسمتی سے واپڈا کی زیر نگرانی یہ منصوبہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی توتعطل کا شکار ہے ۔

کھیر تھر کینال کی کمانڈ میں آنے والی زرر عی اراضی پر نالے کھودے گئے کئی مقامات پر اسٹرکچر اور پلیں تعمیر کی گئیں منصوبے کے تحت ان نالوں کو مین نالے سے جوڑ کر آر بی او ڈی تھری منصوبے کے مطابق میرو خان زیرو پوئنٹ تک لے جانا تھا تاہم یہ منصوبہ گذشتہ چودہ سالوں سے نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعطل کا شکار ہے ۔

آر بی او ڈی پر جیکٹ کے ڈائریکٹر نے منصوبے کی اہمیت و افادیت پر پریس بریفنگ کے دوران آر بی او ڈی منصوبے کو پاکستان کا میگا پر جیکٹ قرار دیتے ہوئے اسے ملک کی زرعی ترقی میں سنگ میل قرار دیا تھا جس کی تکمیل سے ہزاروں ایکڑ سیم ذدہ اراضی کی بحالی اور ملکی زرعی پیداوار میں 25فیصد تک اضافے سمیت شہروں سے سیوریج کے اخراج میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ یقینی تھا ۔

واپڈا نے سیم نالوں کی کھدائی کے لئے زمینداروں سے کروڑوں روپے کے عیوض زمین خریدی جس پر ادھورے نالے تعمیرکئے گئے14 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی متعلقہ ادارے نے سیم نالوں کو مین نالے سے جوڑے کا کام نہیں کیا چنانچہ منصوبے سے مستفید ہونے والے زمینداروں کی زرعی اراضیات پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں ۔

زرخیز زمینیں بنجر اور سیم و تھور کا شکار بن رہی ہیں بعض زمینداروں نے کئی کلو میٹر تک کھودے گئے نالوں کو ہموار کرکے وہاں کاشتکاری شروع کر دی ہے جبکہ معض مقامات پر نا معلوم افراد نے پلوں اور آبی گزر گاہوں کے لئے تعمیر کئے گئے اسٹرکچر کو توڑنا شروع کر دیا ہے ۔

زمینداروں اور کاشتکار کمیونٹی کے مطابق وفاقی حکومت بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہے آر بی او ڈی منصوبے پر اگر چہ تینوں صوبوں میں کام چل رہا ہے لیکن بلوچستان کو نظر انداز کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

انہوں نے کہا کہ منصوبے پر کا،م بند کرنے سے جہاں قومی دولت کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہو گا وہاں کھیر تھر کمانڈ کی زرعی اراضیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہونے اور شہروں سے سیوریج کا اخراج معطل ہونے کا اندیشہ ہے عوامی حلقوں نے آر بی او ڈی منصوبے پر جلد کام شروع کرنے او رمنصوبے کی فوری تکمیل کا مطالبہ کیا ہے ۔