مرکزی وزیر دانیا ل عزیز نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت ہر قیمت پرآئندہ انتخابات سے پہلے پی آئی اے کو نیلام کرے گی ۔پورا ملک اس فیصلہ کی مخالف ہے۔
پی آئی اے ملازمین نے گزشتہ سال احتجاج کیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پی آئی اے کی نیلامی کا فیصلہ واپس لے ، چنانچہ یہی ہوا حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔اور اب ایک بار پھر دانیال عزیز گرجے, برسے اور اعلان کیا کہ اس بار وہ پی آئی اے کو ضرور نیلام کریں گے اوریہ کام ان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے کیا جائے گا۔
اصولی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ساکھ عوام الناس کے سامنے انتہائی خراب ہے ان کے رہنماء نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایک انتہائی کرپٹ انسان ہیں تو دوسرے وزراء کے کیا کہنے ۔ آئندہ چند ہفتوں میں احتساب عدالت نواز شریف کو مزید سزائیں سنا سکتی ہے جس سے ن لیگی سکتہ میں آئیں گے لیکن یہ فیصلے عوامی توقعات کے مطابق ہوں گے ۔
وزیر صاحب اور ان کی پوری حکومت عوامی اعتبار کھو چکی ہے انہوں نے ملک کے قیمتی اور منافع بخش اثاثے اپنے من پسندوں لوگوں کو فروخت کیے ۔آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے پاس ملک کی ہر چیز گروی رکھوا دی اور ملک کو دیوالیہ کردیا ۔ ان کا ہوس زر اب بھی ختم نہیں ہوا، ان کی نظریں اب پی آئی اے پر لگی ہوئی ہیں کہ اس باروہ اس کو ضرور فروخت کریں گے چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔
وزیر موصوف کو پتہ ہونا چائیے کہ پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے صوبے یا وفاقی اکائیاں اس ملک میں ویٹو کا اختیار رکھتی ہیں ۔‘ وفاقی اکائیاں اس کی مخالف ہیں،وہ پی آئی اے کو قومی اثاثہ سمجھتے ہیں اور اس کی ترقی چاہتے ہیں جبکہ اس کی تباہی صرف اور صرف ن لیگ اور اس کے وزراء چاہتے ہیں۔ بلوچستان ‘ سندھ اور کے پی کے کی وفاقی اکائیاں اس کی فروخت اور نیلامی کے خلاف ہیں ۔
پورے پاکستان کے عوام پی آئی اے سے استفادہ کررہے ہیں ۔ پی آئی اے کے بغیربلوچستان پورے پاکستان سے کٹ کر رہ جائے گا ۔ دوردراز علاقوں کے لئے پروازیں بند ہوجائیں گی ۔ اگربہانہ ادارے میں کرپشن کی ہے تو وزیراعظم اور لیڈر خودکرپٹ ثابت ہوگئے ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پی آئی اے میں بھی کرپشن روکے اور خود بھی کرپشن سے باز آجائیں ۔
کرپشن اور نا اہلی کو بہانہ بنا کر پی آئی اے کو نیلام کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنے من پسندلوگوں کو نوازنے کی کوشش نہ کرے ۔ہونا تو یہ چائیے کہ پی آئی اے کو اتنے جہاز خریدکر دئیے جائیں کہ وہ سالانہ 8ارب ڈالر کما کر حکومت پاکستان کو دے ۔ یہ کہنا کہ ترکش اےئر لائن سالانہ آٹھ ارب ڈالر کما رہی ہے ،یہ بات درست ہے مگر اس کے پاس سو سے زیادہ اچھے اور نئے جہاز بھی ہیں ۔
حکومت پاکستان پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنانا نہیں چاہتی بلکہ اس کو اپنے من پسند لوگوں یا ادارے کے حوالے کرنا چاہتی ہے جو ملک دشمنی اور قوم دشمنی ہے ۔ اس کی مخالفت کی جائے گی تمام پارٹیاں اور سول سوسائٹی اس کی مخالفت کریں بلکہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں کہ پی آئی اے کو وسائل فراہم کرے کہ وہ نئے جہاز خریدے ۔
ایران کی کوشش ہے کہ آئندہ بیس سالوں میں 500بڑے جہاز خریدے گا اور ملک بھر کے عوام کو ہوائی سفر کی سہولت دینے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر سالانہ کمائے گا ۔ یہ ایرانی حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمائے جبکہ دوسری جانب ہماری کرپٹ حکومت کے کرپٹ وزراء بہانے تلاش کرر ہے ہیں کہ پی آئی اے کو نیلام کریں تاکہ ایک ایٹمی ملک پاکستان کی اپنی اےئر لائن نہ ہو اوروہ دوسروں کا محتاج بن جائے ۔
یہ پالیسی صرف زر پرست سیاسی رہنماؤں کا ہو سکتا ہے کسی عوامی لیڈر کی یہ سوچ نہیں ہو سکتی کہ ملک کے تمام ترقیمتی اثاثوں کو نیلام کر ے اور اس کا معاوضہ باہر کے ملکوں میں وصول کرے جیسا کہ بہت سے میگا پروجیکٹس کے معاملے میں ہوا ہے۔