گلستان: عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے جمہوریت کے استحکام اورمضبوطی کے لئے اپنا مثالی کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں آنے والی ان ہاؤس تبدیلی مکمل جمہوری طریقے سے عمل میں لائی عدم اعتماد کی اس تحریک کو غیر جمہوری سازش کہنے والے بتائیں کہ کیا کل انہوں نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی جمہوری حکومت کے خلاف جو ووٹ دیا تھا وہ بھی کوئی سازش تھی ۔
میر عبدالقدوس بزنجو نے 544ووٹ اب نہیں لئے بلکہ اس وقت بھی ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد یہی تھی جب انہیں ڈپٹی سپیکر منتخب کیا گیا، اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایاجاسکتا کیونکہ اب لوگ ایک ایک بات سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگا کر لوگ پیٹ پرستی کی انتہاء کو پہنچ گئے ۔
جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لئے عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین کا کردار تاقیامت نہیں جھٹلایا جاسکتا ، فخرا فغان باچاخان کی خدمات اور جدوجہد کو دنیا کا کوئی سیاسی کارکن نہیں جھٹلا سکتا
انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں پشتونوں سمیت تمام محکوم اقوام کے حقوق کے حصول اور جمہوریت کی سربلندی و سماجی انصاف کے لئے قیدو بند اور جلا وطنی کی اذیتیں برداشت کیں ۔
ان خیالات کااظہار عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنماء ڈاکٹرعنایت اللہ خان ، صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی ، صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی ، ضلعی صدر اسدخان ، رکن مرکزی کمیٹی ڈاکٹر صوفی اکبر ، ضلعی نائب صدر خان محمدکاکڑ ، عنایت خان عبدالرحمان ، حبیب اتل ، کلیم اللہ کاکڑ ، نصیر شاہ و دیگر نے ہفتے کے روزہ تحصیل گلستان کلی عبدالرحمان زئی میں باچاخان کی 30ویں برسی کے موقع پر منعقدہ تعزیتی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
اس موقع پر عجب گل حبیب زئی ، نذیر حبیب زئی اور حاجی حیات حبیب زئی کی قیادت میں درجنوں سیاسی کارکنوں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے مستعفی ہو کر عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی و صوبائی قائدین نے فخر افغان باچاخان کو ان کی قومی سیاسی خدمات اور جدوجہد پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ باچاخان نے قوم اور وطن کی خاطر انگریز سامراج کے سامنے ڈٹ گئے اور ایک لمحے کو بھی انگریز سامراج کے سامنے چپ اختیار کرکے مصلحت پسندی کا ثبوت نہیں کسی قسم کی لالچ ، دھمکی ، قیدو بند حتیٰ کہ گولیوں کی بوچھاڑ بھی انہیں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکی ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی باچاخان نے صاحب بصیرت رہنماء ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف پشتونوں بلکہ تمام قوموں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی انہوں نے ملک کی تمام اکائیوں اور قومیتوں کو یکساں توجہ دینے ، ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو یقینی بنانے ، انہیں سماجی برابری دلانے اور جمہوریت کی خاطر جو جدوجہد کی اس سے پوری دنیا وقف ہے اورپوری دنیا انہیں اس جدوجہد پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے ۔
مقررین نے کہا کہ باچاخان کو ان کی جدوجہد سے دور رکھنے کے لئے نہ صرف انگریز سامراج بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی وقت کے زور آور حکمرانوں نے ہر طرح کے حربے استعمال کئے مگر باچاخان اور ان کے ساتھیوں کو ایک لمحے کے لئے بھی ان کے مقصد سے ہٹانے میں کسی قوت کو کامیابی نہیں ملی ۔
باچاخان نے طویل قیدو بند اور جلا وطنی کی اذیت سہی مگر حق و انصاف کا ساتھ دینے اور سچ کی آواز اٹھانے کا سلسلہ انہوں نے نہیں روکا آج جو لوگ عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف بولتے ہیں ہمیں ان کی باتوں پر ہنسی آجاتی ہے کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ پشتون اب باشعور ہوچکے ہیں ۔
آج کی اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے جس میں لوگوں کی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں تک رسائی انتہائی آسان ہوچکی ہے وہ جان چکے ہیں کہ کون سی سیاسی جماعت اور کون سے سیاسی رہنماء کی ترجیحات کیا ہیں کون لوگ ہیں جو حقیقی طور پر جمہوریت ، جمہوری اقدار اور انسانی سماجی برابری انصاف کے حصول اور عوامی مسائل کے حل کے لئے حقیقی جدوجہد کررہے ہیں اور وہ کون سے لوگ ہیں ۔
جو ان نعروں کی آڑ لے کر اپنی ذات اور اپنے مخصوص گروہ کے مفادات کی سرپرستی کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں حالیہ ان ہاؤس تبدیلی اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر بعض لوگ الٹے سیدھے بیانات دے کر اپنا تمسخر خود اڑا رہے ہیں ۔
ہم نے عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لے کر کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں کیا بلکہ جو اراکین اپنا جمہوری اور پارلیمانی حق استعمال کررہے تھے ہم نے ان کا ساتھ دیا اگر یہ کوئی سازش تھی تو پھر اس جمہوری اور پارلیمانی عمل کو سازش کہنے والے بتائیں کہ کل جب انہوں نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی جمہوری حکومت کے خلاف جو ووٹ دیا تھا کیا وہ بھی کوئی سازش تھی اگر سازش تھی تو پھر بتایا جائے کہ ا س سازش کے پیچھے کون تھا ۔
اگر سازش نہیں تھی تو پھر ہمارے جمہوری سیاسی اور پارلیمانی عمل کو سازش کیوں کہا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ یہ اعتراض بھی کررہے ہیں کہ میر عبدالقدوس بزنجو نے صرف544ووٹ حاصل کئے ہیں صوبے کے لوگ ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اسی میر عبدالقدوس بزنجو کو آپ ہی لوگوں نے صوبائی اسمبلی کے انتہائی اہم عہدے پر منتخب کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی کرسی پر بٹھایا کیا اس وقت ان کے پاس یہی544ووٹ نہیں تھے ۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب تک لوگ آپ کی ہاں میں ہاں ملائیں اس وقت تک تو وہ دودھ کے دھلے ہوں اور جب وہ اپنا انسانی اور جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے آپ سے اختلاف کریں تو پھر آپ ان پر ٹھپے لگانا شروع کردیتے ہو جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔
مقررین نے باچاخان کو ان کی 30ویں برسی پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج پشتونوں کو درپیش مسائل کا حل باچاخان کی تعلیمات اور سیاسی فلسفے سے رجوع کرنے میں پوشیدہ ہے ۔
دریں اثناء اے این پی کے زیراہتمام آج باچاخان کی30ویں برسی کی مناسبت سے ضلع سبی میں جلسہ عام منعقد ہوگا جس سے پارٹی کے صوبائی قائدین خطاب کریں گے۔