بعض سرکاری ملازمین اپنے عہدوں کے اعتبار سے گوادر سے متعلق جھوٹی تسلیاں دیتے آرہے ہیں اوررائے عامہ کو بغیر کسی وجہ کے گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
شاید وہ اپنے منصب پر اپنی اہلیت ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ گوادر میں اسی ہزار ایکڑ زمین پر میگا آئل سٹی قائم ہوگا جس کا مقصد زمینی راستے سے چین کو تیل کی سپلائی ہوگی۔
پہلے تو گوادر اور چین کے درمیان ریل کا تصور ہی نہیں کیونکہ حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گوادر کو ریل کے ذریعے جیکب آباد سے ملایا جائے گا نہ کہ زاہدان سے جو ایرانی ریلوے کے ساتھ اکثر وسطی ایشیائی ممالک سے منسلک ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ چین کبھی بھی گلگت بلتستان کے راستے تیل درآمد کرنے کی کوشش نہیں کرے گا جب تک پوری شاہراہ بین الاقوامی معیار کی نہ ہو ۔ ہمارے ایڈیٹر حضرات کے دورہ چین میں ہمیں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا تھا کہ چین صرف اپنے ہی ملک کے اندر شاہراہ تعمیر کرے گا ۔
شاہراہ قراقرم پر بین الااقوامی ہائی وے کی تعمیر صرف اور صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ دوسری جانب چین کی طرف سے یہ واضح اشارے ہیں کہ اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ گوادر کی بندر گاہ کو بین الاقوامی تجارت کے لئے استعمال کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں چین کا کوئی کارگو نہیں ہے کہ اس کو گوادر بندر گاہ کے ذریعے دنیا کے دوسرے ممالک کو روانہ کیاجائے ۔
شاید انہی وجوہات کی بناء پر چین نے باقاعدہ طورپر یہ اشارے دئیے ہیں کہ گوادر کے بین الاقوامی اےئرپورٹ کی تعمیر میں اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ چین اےئر پورٹ اور بندر گاہ کی تعمیر کو ایک تعمیراتی ٹھیکہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ۔ جہاں تک پانی کی فراہمی کی بات ہے گوادر ترقیاتی ادارہ یا صوبائی حکومت نے اس بات کی روز اول سے کوئی کوشش نہیں کی کہ انکاڑہ کورڈیم کو بحال کیاجائے ۔
اس کے جھیل سے چند ایک ٹریکٹر ریت صاف کی جائے اور پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت بڑھائی جائے ۔ حکام نے انکاڑہ کورڈیم کو خود تباہ کیا اور اب پانی کی قلت سے عوام بدحال ہے ۔ چین بھی گوادر بندر گاہ کے دوسر ے مرحلے کی تعمیر میں دلچسپی لیتا نظر نہیں آتا۔
سرکاری افسران سے گزارش ہے کہ وہ پہلے منصوبہ بندی کمیشن سے جہاز سازی کے کارخانے کا اجازت نامہ حاصل کریں جو چند یورپی ممالک نے تعمیر کرنے کی پیش کش کی تھی اورانہوں نے حکومت سے ساحل مکران اور گوادر کے قریب ایک زمین کا ٹکڑا الاٹ کرنے کا کہا تھا جہاں پریورپی ممالک جہاز سازی کی صنعت اپنے اخراجات پر تعمیر کریں گے ، اس پر حکومت پاکستان کا ایک روپیہ بھی خرچہ نہیں آئے گا۔
دوسری جانب چین نے ایران تک ریلوے لائن کا تجربہ کیا جو کامیاب ہو ا۔ چین ایران اور دوسرے ممالک سے تیل خریدے گااور اس ریلوے لائن سے چین لے جائے گا۔ چین کو شاہراہ قراقرم اور گوادر پورٹ اور اس کے آئل سٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے وفاقی حکومت اپنی ترجیحات درست کرے، پہلے گوادر کو ریل کے ذریعے جیکب آباد کے بجائے نوکنڈی سے ملائے تاکہ وسط ایشیائی ممالک گوادر کی بندر گاہ استعمال کرسکیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ حکومت ایشیائی ترقیاتی بنک سے دوبارہ رابطہ کرے اور آسان شرائط پر ساڑھے گیارہ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرے جو بنک نے 1990کی دہائی میں حکومت پاکستان کو پیش کش کی تھی کہ گوادر کو ریل اور سڑک کے ذریعے ترکمانستان کے ریلوے کے اور سڑکوں کے نظام سے منسلک کیاجائے گا۔ وہ رقم ابھی بھی ایشیائی ترقیاتی بنک کے پاس موجود ہے جس کو گوادر کی ترقی کے لیے استعمال میں لایاجا سکتا ہے ۔
اگر مکمل طورپر گوادر پورٹ فعال ہوگیا تو حکومت آسانی سے سالانہ دس ارب ڈالر سامان کی ترسیل سے حاصل کر سکتاہے ۔ اس طرح بین الاقوامی کارگو بندر عباس اور چاہ بہار سے گوادر منتقل ہوجائے گا۔ ہماری سرکاری ملازمین سے یہ گزارش ہے کہ وہ رئیل اسٹیٹ کے فراڈ میں شریک نہ ہوں کہ اگلے بیس سالوں میں گوادر کے ترقی کے امکانات محدود ہیں ۔