|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2018

لاہور اسلام آباد میں اکثر و بیشتر بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے ‘ ان کو مارنے اور پیٹنے کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں۔ یہی صورت حال پشتون طلباء کا انہی دونوں شہروں میں ہے۔

کسی نہ کسی بہانے ان کو تشدد کا نشانہ بنانا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیابلوچ اور پشتون طلباء کو ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے ۔

افغان جہاد کے ابتداء کے ساتھ ہی ملک کے اکثر یونیورسٹیوں اور کالجوں کو مذہبی جماعتوں کے ساتھ منسلک اور الحاق رکھنے والی تنظیموں کے حوالے کیا گیا۔ کراچی میں ترقی پسند طلباء کے خلاف افغان مجاہدین تک کو استعمال کیا گیا ان میں بعض افغان جہادی گرفتار بھی ہوئے ،ان کی بڑی بڑی تصاویر ملک کے بہت بڑے اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہوئیں کہ پولیس نے ان افغان جہادیوں کو گرفتار کیا ہے جو مقامی طلباء اور خصوصاً ترقی پسند طلباء پر حملہ کرنے اور ان کو زخمی کرنے کے واقعات میں ملوث ہیں ۔

بعد میں یہی دونوں افغان جہادی افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں وزیر بھی بنائے گئے، تب بھی ان کی تصاویر اخبارات میں چھپتی رہیں۔ آج بھی اسلامی جمعیت طلباء کا پنجاب یونیورسٹی پرتسلط گزشتہ تیس سالوں سے برقرار رہے بلکہ پوری پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ آئی جے ٹی کے ماتحت ہے ۔

اسلامی جمعیت طلباء کی مرضی کے بغیر پنجاب یونیورسٹی میں کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے اکثر جمہوری تنظیموں کو ٹھکانے لگانے کاکام ریاست نے آئی جے ٹی کو سونپ دیا ہے ، اور اب بلوچ اور پشتون طلباء کو ٹھیک کرنے اور ان کو مشرف بہ اسلام کرنے کی ذمہ داری بھی آئی جے ٹی کو دی گئی ہے ۔

کراچی میں آئی جے ٹی سے ایم کیو ایم نے آخر کار قبضہ چڑھا لیاکیونکہ طالب علمی کے زمانے سے آئی جے ٹی الطاف حسین کی تواتر کے ساتھ مرمت کرتی رہی ہے ۔ جب ایم کیو ایم کو موقع ملا تو اس نے آئی جے ٹی کی قوت توڑ دی اور کراچی یونیورسٹی اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں پر قبضہ جما لیا ۔ مگر یہاں یہ سوال اہم ہے کہ بلوچ اور پشتون طلباء کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے یقیناًریاست پاکستان کی ہے ۔

لہذا ریاستی ادارے اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ صرف اور صرف اختلاف رائے کی صورت میں بلوچ اور پشتون طلباء پر تشدد نہیں کیا جائے گا ۔ بلوچستان کے طلباء بلوچ ہیں پشتون ہیں ‘ پنجابی یا اردو بولنے والے مہاجر نہیں ہیں ، ان کی طرز زندگی اور طرز معاشرت ان سے الگ ہے ۔

یہی پاکستان کی خوبصورتی ہے کہ مختلف قوموں کے لوگ یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ چونکہ بلوچ اور پشتون طلباء کا تعلق پسماندہ ترین علاقوں سے ہے لہذا ریاست ان کو یہ حق دے کہ وہ اپنے ہی ملک کے اندر بہترین اور معتبر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکیں ۔

ان کے جان و مال کی ذمہ داری ریاست اور ریاستی اداروں پر ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیاجائے اور ان کو تمام تعلیمی سر گرمیوں میں حصہ لینے کی مکمل اجازت دی جائے ،ان پر بے جا تشدد اور نفرت کا خاتمہ کیا جائے اور ان کو اس وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنایاجائے کہ وہ نسلاً بلوچ اور پشتون ہیں۔

بعض اوقات حکومتوں نے بھی بلوچ اور پشتون طلباء کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا اور اپنے حامیوں کے ذریعے ان پر حملے کروائے ۔ یہ سب کچھ پاکستان کے مفاد میں بند ہونا چائیے تاکہ ملک بھر میں نفرت نہ پھیلے ۔بلوچ طلباء پر زیادتیوں کے بعد اکثر سیاسی رہنماء اور قومی لیڈروں کے مذمتی بیانات تمام اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔

لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ حکومت پنجاب اس سلسلے میں بھرپورکاروائی کرے اور اس مسئلے کا مستقل حل نکالے کیونکہ پنجاب میں بلوچ طلباء پر حملے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیے جاتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پنجاب میں بلوچوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس طرح کے عمل سے صرف نفرت میں اضافہ ہوگا اور یہ تاثر ملے گا کہ بلوچ اور پشتون اس ملک کے شہری نہیں ہیں ۔

اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں سے اسلامی جمعیت طلباء کا قبضہ واگزار کرایا جائے، ان کو عام طالب علموں کی طرح ڈسپلن کا پابند بنایا جائے ۔ اور ان تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرکے سزائیں دی جائیں جو بلوچ اورپشتون طلباء پر حملوں میں ملوث ہیں ۔