وزیراعلیٰ کے اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو راحت پہنچانے اور دوسری ضروری سہولیات دینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
اس حوالے سے سب سے اہم ترین کام یہ ہونا چائیے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کرنے کے تمام اختیارات واپس لیے جائیں ،کیونکہ یہ صرف اور صرف محکمہ کسٹم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کرے ۔
یہ ایک بہت ہی اچھا فیصلہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایف سی ‘ پولیس ‘ لیویز اور کوسٹ گارڈ اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کریں جن کے لئے وہ قائم کی گئیں ہیں یعنی سرحدوں کی حفاظت اور سمندری حدود کی حفاظت کریں،ان کی ذمہ داریوں میں اسمگلنگ کے خلاف کارروائی شامل نہیں ہے ۔جبکہ یہاں عالم یہ ہے کہ صرف اور صرف اسمگلنگ روکنے کے بہانے ان اداروں نے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی ہوئی ہیں۔
ہر دس میل پر ایک چیک پوسٹ کسی نہ کسی ادارے نے بنا رکھی ہے اور ہر گزرنے والے کو مجرم اور اسمگلر سمجھ کر روک لیا جاتا ہے اور پھر اس کی مکمل جامہ تلاشی اور اس کی سامان کی تلاشی بھی عجیب انداز میں لی جاتی ہے۔ ایک بار بلوچ قومی رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل کی گاڑی کو کوسٹ گارڈ نے روک لیا ، وہ صوبے کے پہلے منتخب وزیراعلیٰ تھے ، معروف رہنما تھے اس کے باوجود ان کو روک لیا گیا اور ان کے ساتھ بد تمیزی کی گئی ۔ یہ واقعہ کوسٹ گارڈ کے اوتھل چیک پوسٹ پر پیش آیا تھا ۔
ایک دوسرے واقعہ میں ایک صحافی کے سامان میں ایک درجن صابن تھا ،تلاشی لی گئی ایک درجن صابن کو اسمگلنگ کا مال سمجھ کر قبضے میں لیاگیا ۔ جب اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ایک درجن صابن جس کی قیمت اُس وقت بمشکل دو سو روپے تھی ‘ ضبط کر لی گئی ۔ کوسٹ گارڈ کے افسران سالوں تک یہ کوشش کرتے رہے کہ صحافی واپس آئے اور اپنا اسمگل شدہ ایک درجن صابن واپس لے جائے۔
بلوچستان کی معیشت کی تباہی اور بربادی میں اسمگلنگ کا بڑا عمل دخل ہے ۔خصوصاً قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جس کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ یعنی صرف ایک کارروائی نے حکومت کی ساکھ کواتنا نقصان پہنچایا جو متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں سے نہیں ہوسکا ۔ اب شاید یہ ضبط شدہ سامان سرکاری مال خانے اور خزانے میں جمع ہو ۔کیونکہ اکثر ضبط شدہ مال سرکاری کار ندے لے جاتے ہیں ۔
صوبائی وزیر داخلہ کے ایک چھاپہ سے یہ معلوم ہوا کہ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ اختیار واپس لے لیا ہے۔ اگر اس کے ساتھ تمام چیک پوسٹیں ہٹا دی گئیں ہیں تو آنے والوں وقتوں میں حکومت کے خلاف مظاہرے ‘ ہڑتالیں ‘ اور چیک پوسٹوں پر جھڑپیں نہیں ہوا کریں گی۔ یہ واقعی ایک بہت بڑی راحت ہے جو بلوچستان کے عوام کو دی جارہی ہے۔ اب امید ہے کہ کسی بھی چیک پوسٹ پر لوگوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا۔
اگر یہ اعلانات درست ہیں تو یہ بلوچستان میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے ۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ گوادر کے مستقبل کے بارے میں قانون سازی کریں گے اور لوگوں کے جائز قومی حقوق کا تحفظ کریں گے تاکہ گوادر اور اس کے مستقبل پر کنٹرول مقامی آبادی کار ہے ۔ اس کے ساتھ ایک مکمل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا جو گوادر اور ساحل مکران کی ترقی کے تمام معاملات پرنظر رکھے گا اور گوادر یا ساحل مکران پر سرمایہ کاری کرنے والوں کی رہنمائی کرے گا۔
البتہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گوادر اور ساحل مکران پر دیگر بند ر گاہوں کو حکومت بلوچستان کے حوالے کیا جائے اگر حکومت کوگوادر اور دیگر بندرگاہوں کی ترقی میں دلچسپی ہے تو صوبائی خودمختاری کی صورت میں اس خطے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔
یورپی ممالک کی جانب سے ساحل مکران پر جہاز سازی کی صنعت کے قیام کی پیش کش منصوبہ بندی کے سرد خانے میں گزشتہ دس سالوں سے پڑی ہوئی ہے ۔ یورپی ممالک صرف اور صرف زمین کی الاٹ منٹ چاہتے ہیں اور بقیہ تمام سرمایہ کاری یورپی ممالک کریں گے۔ اس کے علاوہ ایران بھی اس خطے میں چین کی مدد سے جہاز سازی کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے شاید چین سے اس کا معاہدہ بھی ہوگیا ہے ۔