صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے باضابطہ یہ اعلان کردیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس اور لیویز سے کسٹم ایکٹ کے تحت تمام اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں اور ایف سی متعلق اختیارات کی واپسی کے لئے وفاقی حکومت سے رجوع کیا گیا ہے کہ ایف سی جو ایک وفاقی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے ، اس سے بھی کسٹم ایکٹ کے تحت تمام اختیارات واپس لیے جائیں ۔
اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بنیادی ذمہ داری امن و امان بحال کرنا ‘ عوام الناس کی جان و مال کی حفاظت کرنا ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا اور ان کو مکمل طورپر شکست دینا ہے۔
اسمگلنگ روکنے کے لئے ایک مخصوص ادارہ پاکستان کسٹم کے نام سے موجود ہے ۔طریقہ کار یہ ہے کہ جب کبھی کسٹم حکام کو ضرورت ہوئی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی مدد کو پہنچ گئے۔ ایسا کبھی نہیں ہو اکہ پاکستان کسٹمز کو بے یارو مدد گار اسمگلروں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمیشہ مدد کی ہے کیونکہ یہ ایک ریاستی ادارہ ہے جو اپنا کام کررہا ہے۔ دراصل پاکستان کے اندر اور اس کے گردونواح میں سیکورٹی کی صورت حال زیادہ مخدوش ہے، آئے دن افغان سرحد سے دہشت گرد پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کے اندر داخل ہورہے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں ۔
اس کی تصدیق سیکورٹی ادارے کرتے رہے ہیں اور اس کی با قاعدہ نشاندہی بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل نے خود کی کہ خودکش بمبار افغانستان سے آرہے ہیں۔ ایسی اطلاعات کے بعد ایف سی اور پولیس کو اینٹی اسمگلنگ پر محدود کرنا ملک اور قوم کی خدمت نہیں ہے ، سرحدی محافظوں کو سرحدوں کی نگرانی پر مامور کیا جائے ۔ اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کو خصوصاً پاکستان کسٹمز کے حوالے کیاجائے ۔
روایتی طورپر پاکستان کسٹمز ایک موثر ادارہ رہا ہے، ہم نے اپنے پچاس سالہ صحافتی زندگی میں اس کو انتہائی موثر اور پروفیشنل دیکھا ہے۔یہ ایک اہم ریاستی ادارہ ہے اور اپنا کام ایمانداری سے کر رہاہے ، اس پر اعتبار نہ کرنا اور اس کاکام کسی دوسرے ادارے کے حوالے کرنا زیادتی ہے ۔
یہ حوصلہ شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ ملک اور ریاست کا ایک اہم ترین ادارہ ہے اس پر مکمل طورپر اعتبار کرنا چائیے ۔دوسری جانب یہ بلوچستان کے عوام کے لئے بہت بڑی راحت ہے جس کی مثال گزشتہ پندر ہ سالوں میں نہیں ملی ، یہ کسٹمز کا معاملہ ہے کہ وہ افغان ٹرانزٹ تجارت کو قانون کا پابند بنائے اور یہ تجارت صرف اور صرف افغانستان کے لئے ہو ۔
اس کو پاکستان کے اندر اسمگلنگ کا ذریعہ کسی طوپر نہ بنایا جائے ۔ اس بات کو سو فیصد یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کا مال‘ افغانستان ہی جائے گااور پاکستان خصوصاً کراچی ‘ کوئٹہ ‘ لاہور اور پشاور میں فروخت نہیں ہوگا ۔کوئی بھی شخص افغانستان ٹرانزٹ تجارت کا مال فروخت کرتا ہوا پایا جائے اس کو گرفتار کیاجائے اور اس کو سزا دی جائے۔
دوسری طرف ایران سے قانونی تجارت کو فروغ دیاجائے تاکہ اسمگلنگ کی گنجائش کم سے کم رہ جائے اور حکومت کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس سے آمدنی ہو، اس کے لئے سرحدی تجارت کو فروغ دیاجائے ۔
حکومت پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کی اہمیت کو کم سے کم کیاجائے تاکہ اس کے فوائد بلوچستان کے غریب عوام تک نہ پہنچیں ۔ سرحدی تجارت کے بارے میں ایران کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں پاکستان کسٹمز کے ایک افسر کو لیڈر بنا کر بھیجا گیااور صوبائی حکومت سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔
ایران کی طرف سے ایک اچھی تجویز آئی کہ 1000 میل طویل سرحدی پٹی پر کم سے کم بیس تجارتی منڈیا قائم کی جائیں تاکہ دونوں اطراف کی عوام اپنی ضروریات کی اشیاء قانونی طورپر خریدسکیں ۔
ادھر کسٹم کے ملازم نے اس کو ویٹو کیا کہ صرف پانچ ایسی منڈیاں ہونی چاہئیں بیس نہیں ‘ اس کا واضح مطلب قانونی تجارت سے فرار او ر اسمگلنگ کی حمایت تھی اور عوام کو راحتیں دینے کے خلاف قدم تھا ۔