|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2018

پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور پشتون طلباء پر حملے کے بعد انہی میں سے 180طلباء کو گرفتار کیا گیا۔ انتہائی بے شرمی کے ساتھ نہتے طلباء پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے اور ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ۔

پورا پاکستان نہتے طلباء کے خلاف پنجاب حکومت کی کارروائی پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور ہر ذی شعور حکومت کے اس عمل کی مذمت کررہا ہے اور سب یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ نہ صرف طلباء کو با عزت رہا کیاجائے بلکہ ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت لے۔

بلوچ طلباء زیادہ بہتر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے گئے ہیں سالوں سے اس کی تصدیق ہوتی چلی آرہی ہے، یہ کوئی خودکش بمبار نہیں ہیں جو پنجاب یا تخت لاہور پر حملہ کرنے گئے ہیں یاخصوصاً خودکش حملہ کرنے گئے ہیں ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ حاکموں نے اسلامی جمعیت طلباء کی سرپرستی کی اور ان کی حاکمیت کو پاکستان کے اکثر تعلیمی اداروں پر مسلط کیا تاکہ کسی بھی حکومت مخالف تحریک کا انسداد پولیس ‘ فوج یا دوسرے اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ اسلامی جمعیت طلباء کی قوت سے کیا جائے ۔

گزشتہ چالیس سالوں سے پنجاب یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں پر آئی جے ٹی کے قبضہ کو بر قرار رکھا گیا ہے اور بہانہ نظریہ پاکستان کو بنایا گیا ہے ۔ سرکاری حمایت کے بغیر کسی بھی طالب علم کی یہ ہمت نہیں ہو سکتی کہ پولیس کا مقابلہ کرے ،اس کو ریاست کی حمایت حاصل ہے اور اسی حمایت کے بل بوتے پر جمعیت کے طلباء پولیس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اکثر پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس سے پولیس کو مار بھگاتے ہیں۔

آج ہی سوشل میڈیا پر ایک تصویر میںآئی جے ٹی کاکارکن پولیس والوں پر پستول نکالنے کی کوشش کررہا ہے ۔جہاں تک کراچی یونیورسٹی کی بات ہے حکومت وقت کو ایم کیو ایم زیادہ پسند تھی اس لیے کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلباء کو بے دخل کیا گیا ۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلباء کے نامور پہلوانوں کو یہ ہدایت ملی کہ وہ مسلمان سے مہاجرین بن جائیں اور وہ حکم کے مطابق مہاجرین بن گئے اور کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلباء کی حکمرانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی ۔ اس کا ثبوت پاکستانی سیاست کی نامور شخصیت میر حاصل بزنجو اورسینٹ کے چئیرمین رضا ربانی ہیں ۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم رہے اور انہوں نے کیمپس میں دہشت گردی کا سامنا کیا ۔

اس وقت وہ جنرل ضیاء کے اسلامی نظام کے مخالف تھے ۔لیکن حکومت وقت کو موجود سیاسی صورت حال میں اسلامی جمعیت طلباء کی گرانقدر خدمات کی ضرورت ہے خصوصاً پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں جہاں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

پنجاب یونیورسٹی کے خونی واقعہ نے ایک پیغام بلوچستان کے طول و عرض میں پہنچا دیا کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی موجودگی کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ۔یہ پیغام پہنچ گیا جس پر پورے بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی رہنماؤں نے یک زبان ہوکر اس سارے عمل کی مذمت کی۔ جب ان طلباء کو رہائی ملے گی تو ان کی اکثریت پنجاب چھوڑ دے گی اور دنیاکے دوسرے ممالک میں اسکالر شپ پر یاا پنی استطاعت کے مطابق بہتر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس کو حکومت وقت کا فیصلہ سمجھناچائیے کہ موجودہ صورت حال میں بلوچ طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ بہ حیثیت پاکستانی ان سے ایک قومی حق چھینا جارہا ہے ۔ گرفتار طلباء کے خلاف دہشت گردی کے دفعات کو شامل کرنے کا مقصد اس تصور کو تقویت پہنچانا ہے کہ بلوچ طلباء علم حاصل کرنے نہیں بلکہ پنجاب میں دہشت گردی پھیلانے آئے۔

کیامضحکہ خیز بات ہے کہ 180نہتے طلباء دس ہزار مسلح طلباء پر حاوی ہوں ۔اہل پنجاب کو بھی سوچنا چائیے کہ اس طرح پنجاب سے بلوچ طلباء کی بے دخلی اہل بلوچستان کو کیا پیغام دے گی اور اس کا زیادہ نقصان کس کو ہوگا کیونکہ بلوچ طلباء کے لئے صرف ایک راستہ بچاہے کہ وہ پنجاب چھوڑدیں اور دنیا کے کسی اور ملک میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ انہیں بہرحال پڑھنا ہے ،اچھا انسان بننا ہے اور اپنی سرزمین کی خدمت کرنا ہے ۔