روز اول سے بلوچ قیادت نے افغان مفتوحہ علاقوں کو بلوچستان میں شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ انگریز سامراج نے افغانستان کے گرد ایک حصار تعمیر کرنے کے لئے قلات سے الگ ایک انتظامی یونٹ قائم کیا ۔
اس میں مری بگٹی کے قبائلی علاقے نصیر آباد‘ چاغی اور کوئٹہ کا گیریژن ٹاؤن شامل کیا گیا اور باقی افغان مفتوحہ علاقے بھی شامل کیے گئے ۔یہ سب کچھ زبردستی بلوچستان کے عوام پر ان کی مرضی کے خلاف تھوپا گیا ۔
بلوچ عوام نے ان مفتوحہ علاقوں پر کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ ذمہ دار بلوچ سیاستدانوں اور قومی سیاسی پارٹیوں نے وہاں سے انتخاب لڑنے سے اجتناب کیا، اور نہ ہی کبھی انکے وسائل پر نگاہ رکھی ۔ افغان مفتوحہ علاقے بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی بلوچ قوم کا ان پر کسی قسم کا کوئی دعویٰ ہے بلکہ سیاسی اکابرین روز اول سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں شامل افغان مفتوحہ علاقوں کو فوری طورپرفاٹا میں شامل کیا جائے۔
فاٹا اور اس کے ملحقہ علاقے گزشتہ ادوار میں افغانستان کا حصہ رہے ہیں اوربلوچستان کے یہ علاقے ان علاقوں کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کی سرحدیں ملتی ہیں یہ سب ایک زبان بولتے ہیں ، ان کا تعلق ایک ہی پشتون قوم سے ہے کوئی وجہ نہیں کہ ان کو یکجا ہونے سے روکا جائے۔
ان علاقوں کے انضمام سے ہم دنیا بھر پرثابت کریں کہ ہم ایک انصاف پسند ملک ہیں اور قوموں کی برابری پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو برابر کے حقوق دینے کو تیار ہیں ۔لہذا بلوچستان کی قومی سرزمین کو افغان مفتوحہ علاقوں سے الگ رکھا جائے ،بلکہ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے۔
پختون قوم کو ایک صوبہ میں رہنے کا بنیادی حق حاصل ہے یہ حق ان کو ضرور اور ہر قیمت پر ملنا چائیے ۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چائیے کہ بلوچ سرزمین پران کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ وسائل پر ۔ اس لیے پاکستان کے اندر صوبائی سرحدوں کی دوبارہ حد بندی ہونی چائیے ۔
تاریخی بلوچ علاقے ‘ ڈیرہ غازی خان ‘ ڈیرہ اسماعیل خان ‘ جیکب آباد اور اس کے تمام ملحقہ بلوچ علاقوں کو بلوچ سرزمین کا دوبارہ حصہ بنایا جائے اور بلوچستان کے افغان مفتوحہ علاقوں کو وسیع تر پختون صوبے کا حصہ بنایا جائے ، ان کو کے پی کے اسمبلی میں منا سب نمائندگی دی جائے ۔
ہمارے محترم محمود خان اچکزئی کو فاٹا کا نظام زندگی بہت پسند ہے ، اس لیے پہلی فرصت میں بلوچستان میں موجود افغان مفتوحہ علاقوں کو فاٹا میں شامل کیاجائے، جب محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان ‘ دو اعلیٰ پایہ کے پختون رہنماء اس بات پر راضی ہوجائیں تو ان کو وسیع تر پختون صوبے کا حصہ بنایاجائے ۔
ظاہر ہے کہ اس کا مرکز پشاور ہوگا اوراس کے تمام فیصلے پشاور میں ہی ہوں گے کوئٹہ میں نہیں بلکہ ان کی صوبائی حکومت ان کو ذرائع روزگار اور ذرائع زیست مہیا کرنے کی پابند ہوگی ۔ بلوچستان کو یہ اختیار دیاجائے کہ وہ اپنے باشندوں کا خیال رکھے اور ان کو ذرائع روزگار فراہم کرے ۔
ہمارا مشورہ ہے کہ بلوچ سرزمین کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے اور خصوصاً انتظامی معاملات سے اجتناب کیاجائے ۔موجودہ حکومت سے لاکھ اختلاف سہی مگر یہ اسمبلی کے اراکین ہیں حکومت سازی ان کا حق ہے ۔
ان میں اکثر سابقہ اتحادی حکومت کا حصہ رہے ہیں، یہ بھی پی ایم اے پی ممبران کی طرح منتخب ہو کر آئے ہیں، یہ سابقہ حکومت کے وزیر منصوبہ بندی کا اختیار تھا کہ وہ وزیراعلیٰ کے اسکیموں کے لیے فنڈ جاری نہ کرے ،اور اس نے سابق وزیراعلیٰ کو مجبور کیا کہ اس کی غیر ترقیاتی اسکیموں کے لیے رقم جاری کرے اور پھر وزیر اعلیٰ کو دکھانے کے لیے اس کی چند چھوٹی چھوٹی اسکیموں کو مکمل کیا۔
اب ہمارے دوست حکومت سے باہر ہوگئے ہیں تو ان کارونا دھونا شروع ہوگیا ہے کہ ہائے ہمارے ترقیاتی فنڈز ، یعنی یہ چند ہفتے ان سے نہیں گزارے جارہے کیونکہ اس کے بعد نئی حکومت بنے گی ۔ ہماری ذاتی رائے ہے کہ منصوبہ بندی کے اسی فیصد منصوبے گٹر اسکیم ہیں ان سب پر کام نہ صرف روک دیاجائے بلکہ ان سب کو منسوخ کیاجائے ۔
ایم پی اے حضرات قانون سازی کریں ’ انتظامی اور منصوبہ بندی کے معاملات میں مداخلت نہ کریں بلکہ وہ نئے انتخابات کا انتظار کریں جو ہفتوں میں متوقع ہیں ‘ سالوں میں نہیں ۔