امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امن کے لئے دنیا بھر کے ممالک سے امداد طلب کر لی اور ساتھ ہی یہ واضح اعلان کیا کہ طالبان جنگجوؤں سے مذاکرات کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات حالیہ دنوں میں ہوئے ہیں ۔ ایمبولینس بم حملہ میں سو سے زائد افراد ہلاک اور 235 زخمی ہوئے ۔ یہ اس ٹرک بم دھماکے کے بعد بہت بڑا واقعہ ہے جس میں 150سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
اسکے بعد قندھار میں Save the Childrenنامی بین الاقوامی ادارے پر حملہ ہوا ۔ آخری حملہ کابل کی ملٹری اکیڈمی پر ہوا جس میں گیارہ فوجی ہلاک ہوئے ۔یہ موسم گرما کی آمد سے پہلے کے واقعات ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں جاری خانہ جنگی میں کتنی شدت آئے گی ۔
ادھر امریکی اور اس کے اتحادی افواج نے طالبان اور دیگر جنگجوؤں کے خلاف فضائی قوت کے استعمال میں اضافہ کردیا ہے ۔ ایک امریکی کمانڈر نے وارننگ دی ہے کہ طالبان اور انکے رہنماؤں کو امریکی فضائی قوت کا اندازہ نہیں ہے کہ وہ کتنی طاقتور ہے جو جنگ کا منظر نامہ بدل سکتی ہے۔
خانہ جنگی میں ا س نئی شدت سے پورے خطے میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے خصوصاً ایران، پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک میں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ پاکستان میں امن وامان کا براہ راست تعلق افغانستان کی سیکورٹی صورت حال سے ہے ۔
اگر افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوتاہے تو اس سے پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کو فائدہ پہنچے گا ورنہ دوسری صورت حال میں تمام پڑوسی ممالک افغانستان کی خانہ جنگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے دوسر ے پڑوسی ممالک ہمیشہ سے افغانستان میں امن کے خواہاں رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی آبرو مندانہ حل نکل آئے ۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ امریکا اور افغانستان دونوں پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں کہ افغان طالبان پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں ان الزامات کو پاکستان ہمیشہ کی طرح رد کرتا آیا ہے ۔
یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے نے دنیا کو واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی سرزمین پر موجود نہیں ہے اس کو بہت پہلے پاکستان کی سرزمین سے بے دخل کردیا گیا تھا جب پاکستان کے مسلح افواج نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی اور دہشت گردوں کا صفایا کردیا، ان کے کمانڈ اور کنٹرول کے تمام اڈے تباہ کردئیے اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا البتہ ان میں سے بعض جنگجو افغانستان فرار ہوگئے ۔
مسلح افواج نے پہلے ہی حکومت افغانستان کو یہ اطلاع دی تھی کہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف زبردست کارروائی کی جارہی ہے لہذا افغانستان اپنی ملحقہ سرحد بند کردے، افغانستان نے مشورہ نہیں مانا یوں بعض شدت پسند افغانستان فرار ہوگئے اور اب انہوں نے طالبان کے ساتھ مل کر حکومت افغانستان ،امریکی اور ناٹو افواج کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔
یہ حکومت افغانستان کی غلطی ہے اگر وہ اس وقت بین الاقوامی سرحد بند کردیتی تو یہ جنگجو افغانستان میں داخل نہیں ہوسکتے تھے اور ان کا خاتمہ پاکستان میں ہی ہوجاتا جیسا کہ دوسرے جنگجوؤں کا ہوا ۔
اب موجودہ صورت حال ایک خطر ناک موڑ کی جانب جارہی ہے امریکا اور افغانستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ان کی مذمت میں اضافہ ہورہا ہے کہ ان کے دورمیں انسانی جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یہ طاقتیں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کا مقابلہ نہ کر سکیں افغان حکومت کا بل تک محدود ہے اور کابل بھی مسلسل حملوں کی زد میں ہے، عوام الناس کے جان و مال کی کوئی ضمانت نہیں۔
دوسری جانب ان خدشات میں اضافہ ہورہا ہے کہ امریکا پاکستان پر الزام تراشی میں اضافہ کرے گا اور حکومت پاکستان پر دباؤ بڑھا ئے گا جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید کشیدہ ہوجانے کے خطرات ہیں ۔اس کے لئے حکومت پاکستان ابھی سے اپنی حکمت عملی بنائے تاکہ امریکا کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے بہانے نہ ملیں۔