سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص اپنے آفس میں بیٹھا سگریٹ کے کش پر کش لگاتے ہوئے، دھواں ہوامیں اڑاتے بارباراپنی شیروانی کو سیدھا کرتا‘کبھی پہرہ داری کیلئے کھڑے دو مسلح افراد سے سرگوشی کرتا‘ آفس میں موجود تین ٹیلیفون کی گھنٹیاں بجتی ہی جارہی ہیں۔
ٹیلیفون کی آواز‘ آفس میں موجوداسلحہ بردارافرادیہ سب کچھ صرف سامنے بیٹھے ایک صحافی کو اپنا بھرم دکھانے کیلئے تھا۔صحافی طویل انتظارکے بعد تنگ آکرصاحب محترم کو اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے کہاکہ میں آپ کے انٹرویو کیلئے آیا ہوں اور آپ سے وقت بھی پہلے ہی لے چکاتھا۔
اتنی دیرتک اپنے عروج کا گھمنڈ دکھانے والے صاحب محترم الطاف حسین کہتے ہیں کہ اتنی دیر سے آپ کو ٹیلیفون کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، معلوم ہے یہ کون لوگ ہیں جو مجھے فون کررہے ہیں؟
صحافی نے معصومانہ انداز میں جواب دیا جی نہیں معلوم؟ الطاف حسین نے کہاکہ یہ کراچی کے بڑے بڑے تاجر ہیں ایک زمانہ تھا کہ میں خود چندہ کی پرچی لیکر ان کے پاس جایاکرتا تھا مگر انہوں نے ہماری تنظیم کو ایک آنہ نہیں دیا ،مگر اب مجھے فون کرکے یہ پوچھتے ہیں کہ پیسے کہاں پہنچانے ہیں۔
مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین ان دنوں کراچی کے سیاہ وسفید کے مالک تھے ،یہاں انہوں نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی تھی۔ دودہائیوں تک الطاف حسین لندن میں بیٹھ کرکراچی کو کنٹرول رہے ۔ پھر پیپلزپارٹی کی حکومت نے 90ء کی دہائی میں ایم کیوایم کے خلاف بڑے آپریشن کا آغاز کیاجس میں کراچی کے بدنام زمانہ گینگسٹرز مارے گئے جو ایم کیوایم کی مسلح ونگ کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس آپریشن کا مرکزی کردار نصیراللہ خان بابر تھے ۔
ان دنوں کراچی کے حالات انتہائی کشیدہ رہے ایک طرف مسلح افراد تو دوسری جانب سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے تھے۔ کراچی جو ملک کی معیشت کی شہ رگ ہے جو 80فیصد ریونیو دیتا ہے، روزانہ کے ہڑتال ،جلاؤ گھیراؤ کے باعث کراچی میں کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا‘ ہر دو روز بعد کراچی میں ہڑتال کے باعث کاروباری مراکز بند رہتے تھے یہاں تک کہ عام لوگوں کا جینا محال ہوکر رہ گیا تھا، ہر طرف خوف طاری تھا ، لسانیت کو مزید ہوا دی گئی ۔
معاملہ مہاجروں کے حقوق کا نہیں بلکہ اس ذہنیت کا تھا جو کراچی پر صرف اپنا سکہ جمانا چاہتا تھا جس کا نام الطاف حسین اور اس کا ایک مخصوص ٹولہ تھا۔ اس نام نہاد حقوق کی جنگ میں مہاجر کارڈ کو استعمال کیا گیاحالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا توہندوستان سے بڑی تعداد میں مہاجروں نے ہجرت کی اور بحیثیت مسلمان انہیں یہاں قبول کیاگیا اور وہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی آباد ہوئے مگر بڑی آبادی نے سندھ کا رخ کیا خاص کرکراچی میں مہاجروں کی بڑی تعداد پہنچی۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مہاجروں کوآتے ہی دیگرپاکستانی شہریوں کی طرح تمام مساوی حقوق دیئے گئے یہاں تک کہ انہیں زیادہ ترجیح دی گئی، مگر بدقسمتی سے اسی ذہنیت نے مہاجرلفظ کو اپنی سیاست کا محور بنایا ۔سات دہائیاں گزرجانے اور قومی سیاست میں شراکت داری کے باوجود مہاجر کارڈ کو مخصوص ایجنڈے کے تحت استعمال کیاجارہا ہے۔
ایم کیوایم آپریشن کے بعد ایک بار پھر کمزور ہوگئی ، الطاف حسین سمیت دیگر ایم کیوایم کے سرکردہ قائدین بیرون ملک بھاگ گئے۔ 1999ء میں مشرف دور حکومت میں ایک بار پھر ایم کیوایم منظم ومضبوط ہوگئی۔ کراچی سمیت سکھر،میرپورخاص،حیدرآبادمیں ایم کیوایم نے اپنی جڑیں مضبوط کیں ۔
سابق صدرپرویز مشرف نے ایم کیوایم کوفرنٹ لائن سیاست میں لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ،اس طرح ایم کیو ایم ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایم کیوایم کا جو بھی دور رہااسے کراچی کے عوام کی قبولیت یا مینڈیٹ سے قطعاََ نہیں جوڑا جاسکتا ہاں البتہ دہشت ہی اس کا بنیادی عنصر رہا۔
ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ایم کیوایم نے کسی بھی شعبہ کو نہیں بخشا ،بھتہ خوری سے لیکر میڈیا کی یرغمالی تک اس کا کردار سب کے سامنے واضح ہے۔ دہشت کے بل بوتے پر سیاست یقینازیادہ دیر تک نہیں چلتی اور یہی کچھ ہوا جس طرح ایم کیوایم 2002ء سے لیکر 2012ء تک اقتدار کے مزے لیتا رہا اور کراچی کو لہولہان کرتا رہا یعنی دس سال تک ایک شخص باہر بیٹھ کر ملکی سیاست اور معیشت کو شدید متاثر کرتا رہا ۔
بدقسمتی سے ملک کی دیگر بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین ووٹ مانگنے سے لیکر اتحاد بنانے تک ان کے مرکز نائن زیرو کا یاترا کرتے رہے۔ ایم کیوایم کا زوال 2013ء کے بعد شروع ہونے لگا۔ الطاف حسین کے متنازعہ تقاریر ملکی سیاست کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوئے اور اس طرح اس کی کسی بھی تقریب میں تقریر سمیت بیان تک نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ۔
یہ دن 22 اگست 2017ء کا ہے جس نے ایم کیوایم کے تاریک مستقبل کا فیصلہ کرلیااور اس طرح الطاف حسین کا پاکستانی سیاست سے خاتمہ ہوا۔ پی ایس پی کا بننا، ایم کیوایم پاکستان اور ایم کیوایم لندن کابٹوارہ پھر ایم کیوایم بہادرآباداور پی آئی بی نے مکافات عمل کا واضح نقشہ کھینچا جس نے اردو بولنے والے محب وطن پاکستانیوں کے تابناک مستقبل کی نوید سنادی ہے اور اب وہ آزاد ہوکر اپنے حق رائے دہی کاآزادانہ استعمال کرینگے ۔
اب کراچی کا سیاسی منظر نامہ واضح ہوگیا ہے کوئی ابہام نہیں اردو بولنے والوں کا ووٹ بینک تین جماعتوں کے درمیان تقسیم ہوکر رہ گیا ہے جس میں پی ایس پی، ایم کیوایم فاروق ستار، ایم کیوایم عامر خان شامل ہیں ۔
اب کس کے حصہ میں کتنا ووٹ پڑے گا اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سات دہائیوں پر مشتمل مہاجروں کی سیاست کرنے والوں نے ہی ان کو نقصان پہنچایا اور یہی ایم کیوایم اب نہیں رہا۔