|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2018

الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ کی نااہلی کے بعد اس کے چیئرمین کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے جاری کیے گئے ٹکٹس کو مسترد کر دیا ہے۔جمعرات کو مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے پارٹی ارکان کو نئے ٹکٹ جاری کیے تھے اور یہ ٹکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان کاکہناہے کہ مسلم لیگ نون کے ارکان کو سینیٹ کے جاری کردہ نئے ٹکٹس کو مسترد کرتے ہوئے انھیں آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کے مطابق اب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نئے ٹکٹس جاری نہیں کیے جا سکتے۔

الیکشن کمیشن کے انکار کے بعد مسلم لیگ ن بطور جماعت سینیٹ کے انتخابات سے باہر ہو گئی ہے اور اب اس کے ارکان آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لیں گے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چار راستے تھے جن میں سینیٹ اور آئندہ سرگودھا اور گھوٹکی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو ملتوی کر دینا، مسلم لیگ نون کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کے بغیر سینیٹ کا الیکشن کرانا، انتخابات کو ملتوی کر کے نئے ٹکٹ جاری کرنے کا موقع دینا اور چوتھا راستہ تھا کہ انھیں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔

نواز شریف کی جانب سے جو لوگ نامزد کیے گئے تھے اب ان کی نامزدگی واپس لے لی گئی ہے اور اب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ کامیاب ہونے کی صورت میں ان امیدواروں کی صوابدید پر ہو گا کہ وہ کس جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

یادرہے کہ ایک دن پہلے بدھ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو ان کی سیاسی جماعت کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دیا ہے اور ان کی جانب سے 28 جولائی کے بعد بطور پارٹی صدر کیے جانے والے تمام فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ ن کے نام کے آگے موجود خانے میں پارٹی سربراہ کا نام ہٹا دیا تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمعرات کو اپنا ردعمل دیتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں پارلیمان سے اس کا قانون سازی کااختیار بھی چھین لیا گیا ہے جبکہ 28 جولائی کے فیصلے میں میری وزارت عظمیٰ چھینی گئی تھی، یہ فیصلہ میرے لیے غیر متوقع نہیں ہے۔

اب تازہ منظر نامہ میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماؤں کا جھکاؤ کس جانب ہوگا ،پارٹی سربراہ کیلئے کس کو زیادہ ووٹ پڑینگے کیونکہ اس وقت دو نام سرفہرست آرہے ہیں جن میں میاں محمدشہباز شریف اور مریم نواز شامل ہیں مگر اس سے قبل بھی ہم دیکھیں کہ جب میاں محمد نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا تھاتو پارٹی صدارت یعقوب ناصر کو سونپی گئی تھی مگر یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ فیصلوں کا مرکز جاتی امراء ہی تھا۔

مگر اس بار معاملہ پارٹی صدارت سمیت انتخابات میں اس کی قیادت کرنا ہے جو اہم ذمہ داری ہے اور ملک کی ایک بڑی جماعت کی قیادت کی بھاگ ڈور سنبھالنا بھی ہے تو ایسی صورت میں یقیناًیعقوب ناصر اولین ترجیح نہیں رہیں گے اور یہ فیصلہ دونوں بھائیوں کے درمیان ہی حل ہونا ہے ، اس کیلئے سینئر قیادت سے بھی مشاورت ہوگی۔

اگر اس معاملے کا خوش اسلوبی سے حل نہیں نکلا تو مسلم لیگ ن شاید مستقبل میں خود کو نہیں بچا سکے گی یعنی آگے مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔