تحریر، ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ ہم اپناخیال دوسروں تک پہنچانے کے لیے تقریر و تحریر کا سہارا لیتے ہیں۔ چوں کہ بنیادی مقصد ابلاغ ہے، اس لیے تحریر جس قدر سہل ہو گی، اتنا ہی رواں اور آسان انداز میں قاری تک پہنچنے گی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریر عدم ابلاغ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسا کہیں لکھاری کی مشکل پسندی یا حقائق سے عدم آگاہی کے باعث بھی ہو سکتا ہے تو کہیں قاری کی تحریر و مصنف کے مجموعی پس منظر سے عدم مطابقت بھی اس کا سبب بنتی ہے۔
مثال کے طور پر اُردو کے معروف کالم نویس وسعت اللہ خان نے پروفیسر صبا دشتیاری کی شہادت پر اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں کالم لکھا،(سوری دشتیاری صاحب) جس میں انہوں نے پاکستانی اسٹیشبلشمنٹ کے مؤقف کے ذریعے ان پہ طنز کیا۔ کئی بلوچ نوجوان اس پر سیخ پا ہوئے کہ انہوں نے ریاستی مؤقف بیان کیا ہے اور بلوچو ں کی توہین کی ہے۔ یہ قاری کی جانب سے لکھاری کے مجموعی پس منظر سے عدم واقفیت کی ایک مثال ہے۔
جو لوگ وسعت اللہ خان کو تسلسل سے پڑھتے اور جانتے ہیں، وہ اُن کے قلم سے کوئی گنجلک فقرہ یا تحریر بھی پڑھ لیں تو الزام کی بجائے رک کر ایک لمحے کو سوچیں گے کہ یہ آدمی ایسی بات کس پس منظر میں کر رہا ہے! اسی طرح لکھاری کی حقائق سے عدم آگہی کی مثال دیکھیں۔
پاکستان کے ایک اور معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم میں’ہیلو‘ کو انگریزی کا لفظ Hellسے مشتق لکھا، اور کئی لوگ اس کی مثالیں بھی دیتے رہے۔ اس سے تحریر عدم ابلاغ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ’’اختر مینگل کے زمانے میں لالا صدیق نے سریاب میں زمین لی۔‘
‘ لالا صدیق پر لکھے گئے میرے مضمون میں اس فقرے سے بعض احباب کے ہاں اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ گویا لالا صدیق نے زمین پیسوں پر نہیں لی بلکہ اخترمینگل سے حاصل کی۔ حالاں کہ نہ تو یہ مدعا تھا، نہ ہی تحریر کا نفسِ مضمون اس خیال کی تائید کرتا ہے۔
سادہ سی بات ہے، اُردو میں لینا، خریدنے ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’میں نے گھر لیا‘۔خریدنا کے لفظ سے یہاں جان بوجھ کر احتراز کیا گیا۔ جب کہ اختر مینگل کا تذکرہ محض اس سے قبل عطااللہ مینگل اور اس سے پہلے بزنجو کے تذکرے کے تسلسل میں آیا۔
کہنا یہ مقصود تھا کہ جس صدیق بلوچ کی فکری وابستگی بزنجو سے شروع ہوئی، وہ پھر عطااللہ مینگل اور ان کی جماعت سے رہی، اور اختر مینگل کی حکومت کے زمانے میں ہی انہوں نے سریاب میں زمین لی اور یہاں منتقل ہو کر اپنا ادارہ قائم کیا۔
اگر سرکارسے زمین لینے کا ہی تذکرہ کرنا ہوتا تو اسی جملے کو معمولی سی ترتیب سے یوں بھی لکھا جا سکتا تھا: ’’اختر مینگل کے زمانے میں لالا صدیق نے سریاب میں سرکار سے زمین لی۔‘‘ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جان محمد دشتی صاحب نے’ آساپ‘ کے زمانے میں ایک بار تذکرے میں بتایا تھا کہ وہ جن دنوں اختر مینگل کے پرنسپل سیکریٹری تھے، انہی دنوں لالا صدیق کو قائل کیا کہ یہاں زمین لیں اور شہر سے یہاں منتقل ہوں۔
ان کے بقول لالا صدیق کو سریاب منتقل ہونے پر قائل کرنے میں ان کی بھی محنت شامل تھی۔ بہرکیف، بنیادی طور پر یہ تعزیتی مضمون تھا، جس میں لالہ صدیق کی صحافتی حیات و خدمات کو خراج پیش کرنا تھا۔ تحریر کا بنیادی نفسِ مضمون اسی خیال پر مبنی ہے۔
عنوان سے ہی مضمون کا مقصد و مدعا سمجھا جا سکتا ہے:’’بلوچستان کی روشن فکر صحافت کا تسلسل لالا صدیق بلوچ۔‘‘ ایک ایسے مضمون میں بھلا کوئی الزام کیوں کر دھرا جا سکتا ہے؟ پھر لالا سے میری قربت اور اَن دیکھی شاگردی جیسے تعلق سے اُن کے اہلِ خانہ بھی واقف ہیں، اس لیے ایسی کسی غلطی کا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔
سوشل میڈیا پہ البتہ کچھ نادان دوستوں نے اسے بدنیتی اور الزام تراشی پہ بھی محلول کیا۔ میں گزشتہ بارہ برس سے کالم لکھ رہا ہوں۔ میرا موضوع ہمیشہ بلوچ اوربلوچستان رہا ہے۔دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ وطن اور اہلِ وطن کی تحقیر میں کوئی ایک جملہ بھی سرزد ہوا ہو تو قلم توڑ سزا دی جا سکتی ہے۔
سو، اس قلم سے اگر ایسا کوئی فقرہ سرزد ہو جس میں کسی کجی کا شائبہ ہو، تو اس میں ابلاغ کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے، بدنیتی کا نہیں۔ جو لوگ کسی کی تحریر سے دوسروں کی نیتوں کوناپتے پھریں، ان سے کوئی مکالمہ نہیں۔
البتہ عدم ابلاغ کی بنا پر دوستوں کی دل آزادی پہ معذرت کی جا سکتی ہے۔ لکھنے والا کوئی الہامی صحیفہ نہیں لکھتا کہ جس میں غلطی کا احتمال نہ ہو۔ اس لیے غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے اور نیک نیتی سے کی گئی نشان دہی پہ اسے درست بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ مضمون میں یہ سقم بھی تھا کہ جنگیان ، لالا کا قبیلہ نہیں ان کے والد کا نام تھا۔ نیز بزنجو اور نیپ سے ان کے تعلقات گوادر ملاقات سے قبل قائم ہو چکے تھے۔
بہرکیف، اس مختصر تحریر کو لالا کے اہلِ خانہ معذرت نامہ جان کر قبول کریں جنہیں ایک فقرے سے غلط فہمی ہوئی۔ لالا کا ادارہ ہو کہ گھر، ہم سب کا مشترکہ ہے۔ گھروں میں رنجشیں ہو سکتی ہیں، رنجشیں مٹائی جا سکتی ہیں۔ مخالفین البتہ اپنی توپیں سنبھالے رکھیں کہ ہمارے سینے ابھی اتنے کمزور بھی نہیں ہوئے کہ ان کے فیس بکی کمنٹس سے چھلنی ہوں۔