|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2018

گوادرپورٹ فعال ہونے سے ملکی خزانہ کو 10 ارب ڈالر سالانہ آمدن ہوگی،2006ء میں گوادر پورٹ میں مشرف دور حکومت میں تین برتھ بنائے گئے ۔گوادر اپنے محل وقوع اور گہرے سمندر کی وجہ سے خطے میں بہت بڑا گیم چینجرہے ۔

یہ معاشی حوالے سے دنیا کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جس کی وجہ سے گوادر کو مدرپورٹ کہاجاتا ہے۔گوادر دو خطوں مشرقی اور وسط ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے جس سے خطے کے 50ممالک آپس میںیہاں سے تجارت کرسکتے ہیں۔ایرانی پورٹ بندر عباس اس وقت مشرقی ایشیاء کے ممالک سے صرف تجارتی راہداری کے ذریعے ایرانی خزانہ کو سالانہ 6 ارب ڈالر کماکر دے رہا ہے۔

بندرعباس سے وسط ایشیاء کے بیشتر ممالک 2ہزار 8 سو کلومیٹر جبکہ گوادر سے صرف 1400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، اگر گوادر سے وسط ایشیاء کے ممالک تک سڑک اور ریلوے لائن بچھائی جائے تو پاکستان کو سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن راہداری کے ذریعے ملے گی جو ملک میں بہت بڑی معاشی تبدیلی کاسبب بنے گی۔گوادر پورٹ میں مشرف دور حکومت کے دوران2002ء سے 2006 تک تین برتھ تعمیر کئے گئے ۔

جبکہ موجودہ حکومت نے 72 برتھ تعمیر کرنے کی پلاننگ کی مگر بدقسمتی سے گوادر پورٹ کی تعمیرکیلئے حکومت نے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سابق مشیرخزانہ بلوچستان نے رواں مالی سال بجٹ تقریر میں خود اس بات کا اعتراف کیاتھاکہ گوادر سمیت بلوچستان بھر میں صرف 12 ارب روپے خرچ کئے گئے۔

گزشتہ سال ن لیگ کی حکومت نے 5نئے برتھ تعمیر کرنے کا اعلان کیا جس کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیامگر اب تک اس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیاگیا ۔دوسری جانب ایرانی حکومت سیستان بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران میں سرمایہ کاری کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہی ہے۔

گزشتہ روز ایرانی دارالحکومت تہران میں ایرانی بلوچستان مکران میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا جس میں ایرانی حکام سمیت 120 غیرملکی مہمانوں اور 30ممالک کے سفیروں نے شرکت کی۔ ایرانی حکام کی جانب سے کہاگیا کہ ساحلی علاقہ مکران سرمایہ کاری کیلئے ایک بہترین خطہ ہے اور مکران ایک پوشیدہ خزانہ ہے۔

ایرانی حکام نے ساحلی علاقے مکران کی سیاحتی، تجارتی اور اقتصادی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس علاقے میں ائیرپورٹ، ریلوے نیٹ ورک کے منصوبوں پر کام جاری ہے ۔

اس کے ساتھ ایرانی حکام نے مکران کے ساحلی علاقوں کو انتہائی پُرامن قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ترقی کا اہم ذریعہ بتایا ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اب تک گوادر پورٹ پر خصوصی توجہ نہیں دی جارہی پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد کسی بھی دور میں گوادر پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اب تک گوادر پورٹ فعال نہیں ہوسکی۔

اگر گوادر پورٹ کو مکمل فعال کیاجائے اور اس کے ساتھ ہی ریلوے ٹریک، سڑکوں کا جال بچھانے سمیت انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیاجائے اور اس کیلئے بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تو گوادر پورٹ صرف راہداری کے ذریعے قومی خزانہ کو سالانہ 10 ارب ڈالر کی آمدن دے گی ۔

مگر بنیادی شرط اس منصوبے کو سنجیدگی سے لینے کی ہے جس طرح ایران اپنے ساحلی علاقے پربہت زیادہ سرمایہ کاری کررہی ہے اور اپنی موجودہ آمدنی کو مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔

اگرہماری موجودہ حکومت گوادر جیسے اہم نوعیت کے منصوبے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس پورٹ کی فعالی کیلئے سرمایہ کاری کو بڑھائے تو پاکستان نہ صرف معاشی حوالے سے مستحکم ہوگا بلکہ اس سے بلوچستان کے عوام کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔