|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2018

حکومتی دعوے کے مطابق پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے مگر بلوچستان کے دارالحکومت سمیت دوردراز علاقوں میں لوڈشیڈنگ تاحال جاری ہے ۔حکومت اور اس کے اکثر اداروں کا بلوچستان سے متعلق دہرا معیار ہے ۔

وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کا کریڈٹ اپنے سر لیا کہ اس کی کاوشوں سے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے۔

دیگر صوبوں کے حوالے سے نواز شریف اور حکومتی وزراء کے بیانات درست ہونگے مگر لگتا ایسا ہے کہ بلوچستان کو اس ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتاکیونکہ یہاں پر لوڈشیڈنگ اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ جاری ہے ۔

کوئٹہ میں حسب معمول پانچ سے آٹھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ دن میں ایک سے زائد بار پاور بریک ڈاؤن، سنگل فیز اور کم وولٹیج کے درد سر الگ سے ہیں۔ بلوچستان کے صارفین کو لائن لاسز کی سزا بھی دی جارہی ہے اس ماہ میں بھی زبردست لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے تاکہ لائن لاسز کی کمی صارفین کو سزا دے کر پوری کی جائے ۔

اس پرطرہ یہ کہ نیلم جہلم بجلی منصوبہ کی سرچارج بلوچستان کے عوام سے وصول کی جارہی ہے جو غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے ۔

وزیر توانائی نے بڑے دعوے کیے اور اعلان کیا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی گئی ہے لیکن بلوچستان میں لوڈشیڈنگ کو جاری رکھا گیا ہے اور خصوصاً اس بنیاد پر کہ یہاں لائن لاسز زیادہ ہیں ۔

ادارے اور حکومت کی نا اہلی کی ذمہ داری بلوچستان کے صارفین پر ڈالی جارہی ہے ۔

لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ بجلی کی چوری بھی ہے اوریہ نا اہلی بھی حکومت اور ادارے کے ذمہ آتی ہے کیونکہ بجلی کی چوری روکنے ‘ چور کو پکڑنے اور اس کو سزا دینے کے بجائے اس کی سزا صارفین کو دی جارہی ہے۔

بجلی چوری کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ چوروں کی بجلی کاٹ دی جائے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے بجلی چوری کو روکنے کے بجائے پورے بلوچستان کے نظام زندگی کو مفلوج بنایا جاتا ہے اور بجلی کی ترسیل میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کروڑوں کام کے گھنٹے ضائع کیے جاتے ہیں کیونکہ بجلی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اس طرح عوام کے کام کے کروڑوں گھنٹے حکومت اور حکومتی ادارے ضائع کررہے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری طورپر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ کوئٹہ کے90 فیصد صارفین اپنا بل وقت پر ادا کررہے ہیں یعنی صارفین کی طرف سے شکایات بالکل ہی نہیں ہیں ۔ ذرائع ابلاغ اپنی مکمل ذمہ داری کے ساتھ فرائض سرانجام دیتی ہے ، کیسکو کی جانب سے جاری لوڈ شیڈنگ اعلامیہ ، مرمتی کام، فنی خرابی، ٹاوروں کے مسائل کو ہمیشہ شہ سرخیوں پر جگہ دیتی ہے۔

،ذرائع ابلاغ اس بات کی بھی پابند ہے کہ عوام کے ساتھ جاری ناروا رویہ پر بھی وہ ان کی شکایات کو اسی طرح خبر کی صورت میں شائع کرے اور وہ یہ کررہی ہے۔غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے عوام سمیت تاجر برادری عاجز آچکی ہے ، ان کاکوئی پرسان حال نہیں حالانکہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں بجلی بہت کم استعمال ہوتی ہے کیونکہ یہاں صنعتیں نہیں ہیں چھوٹے کاروباری مراکز ہیں اس کے باوجود بلوچستان کے عوام کو پوری بجلی نہیں ملتی۔

عوامی شکایات کو پس پشت ڈال کر من مانی کا رویہ اپنایاجاتا ہے۔ کیسکو حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ عوام سمیت یہاں کی تاجر برادری سکھ کا سانس لے سکیں۔