بلوچستان میں ساڑھے چار سال تک برسرار اقتدار حکومت نے ایک کھرب روپے سے زائد رقم بجٹ میں مختص کیں۔ سال 2017۔18 کے بجٹ میں محکمہ تعلیم کیلئے 46 ارب روپے رکھے گئے،جس میں 500پرائمری اسکولوں کو مڈل جبکہ پانچ سو مڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا۔
ٹیکسٹ بک کی چھپائی اور سپلائی کے لیے 30 کروڑ روپے مختص کئے گئے، بلوچستان کی پانچ یونیورسٹیز کے لیے 2 ارب 84 کروڑ روپے مختص کئے گئے جبکہ کالجز کے لیے8 ارب روپے اور 1 سو 19 کالجز میں فرنیچر کے لیے دس کروڑ روپے مختص ہوئے، مگر بجٹ کا 35فیصد حصہ بھی خرچ نہیں کیا جا سکا ۔
2016۔17 کے بجٹ کا سب سے بڑا اور اہم حصہ لڑکیوں کے اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور واش رومز کی تعمیرلیے مختص تھا جس کے لیے ایک ارب روپے کا اعلان کیا گیا تاہم یہ خطیر رقم اور میگا اسکیم صرف کاغذائی کارروائی تک محدود رہا محکمہ تعلیم نے چار سال کے دوران صرف اساتذہ کی بھرتیوں پر زوردیا۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم میں ساڑھے چار ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا گیا چار سال کے دوران تعلیم کی اہم وزارت پشتونخواہ میپ کے پاس رہی اگر بلوچستان میں تعلیمی معیار کا جائزہ لیا جائے تو صوبے کے 19 لاکھ 81 ہزار سے زائد بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں صوبے میں گیارہ سو 21 پرائمری اسکولز،ایک ہزار 20مڈل اسکولز،119 کالجز ہیں،تاہم اگر یہاں تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو صوبے کے 90 فیصد پرائمری اسکول پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
7 ہزار بنا چھت کے اسکول قائم ہیں،9 ہزار 5 سو اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں، 25 ہزار اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں۔ 13 سوا سکول عمارتوں سے محروم ہیں، کاغذوں میں موجود چار سو سے زائد اسکولوں کا تعین بھی تاحال نہیں کیا گیا ہے، تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم 32 فیصد بچے اردو کا قاعدہ نہیں پڑھ سکتے ۔
65 فیصد بچوں کو انگلش کے حروف کی پہچان نہیں ،75 فیصد بچے ریاضی کے جمع تفریق کے بنیادی سوالات حل نہیں کر سکتے ۔ بلوچستان آج بھی تعلیمی میدان میں دیگر صوبوں کی نسبت سب سے پیچھے ہے اور ہمارے یہاں بہترین یونیورسٹیز نہ ہونے کی وجہ سے طلباء ملک کے دیگر علاقوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں جہاں انہیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
گزشتہ روز اسمبلی میں سبی میں میرچاکر خان رند یونیورسٹی پر مفصل بحث ہوئی مگر بدقسمتی سے صرف نام کی وجہ سے اس پر ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی ۔ گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران محکمہ تعلیم پشتونخواہ میپ کے پاس رہی جس کے منصوبوں کی تفصیل بالائی سطور میں بیان کی گئی لیکن اس پورے عرصے کے دوران تعلیمی اہداف حاصل نہیں کئے گئے اس ناقص کارکردگی کا کھاتہ بھی اسی پارٹی کے وزراء پر ہی جاتا ہے۔
میرچاکر خان رند یونیورسٹی کو محض نام کی بنیاد پر نشانہ بنایاجارہا ہے جس پر ایوان میں شدیدہنگامہ آرائی دیکھنے کوملی ۔ پشتونخواہ میپ کے اراکین کا اعتراض میرچاکر رند کے نام پر ہے اور اس اعتراض سے وہ نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اگر میرچاکر رند کے نام سے اس یونیورسٹی کو منسوب کیاجاتا ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ،پشتونخواہ ہر چیز کو تعصب کی نظر سے کیوں دیکھتی ہے۔
بلوچستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں اپنے ہی علاقے میں اعلیٰ وبہتر تعلیم حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے لہٰذا اس منصوبے کو تعصب کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ ساڑھے چار سال کے دوران صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی پر جو کارنامہ سرانجام دیا گیا وہ سب کے سامنے عیاں ہے صرف اعلانات وکاغذی کارروائی تک تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے کے دعوے کئے گئے مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
میرچاکر رند یونیورسٹی نسل کو تعمیر ہونے دیں تاکہ بلوچ یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوجائے کہ یہاں کے پشتون بلوچوں کے ہمیشہ نقصان کے درپے ہیں ، ان سے بلوچوں کا فائدہ دیکھا نہیں جاتا تو پھر ایسی ہمسائیگی کا کیا فائدہ۔ اس یونیورسٹی سے بلوچ اور پشتون مشترکہ طور پرفائدہ اٹھا ئیں گے لہذا اسے بننے دیں اسی میں ہم سب کی بہتری ہے