اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو نیا پولیس قانون بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پورے پاکستان کی پولیس کے لیے یکساں قانون ہوناچاہیے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تقرری کیس کی سماعت کی، اس موقع پر سندھ حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار نے پولیس ایکٹ 2011 کو کالعدم قرار دینے اور پولیس ایکٹ 2002 کو بحال کرنے کی استدعا کی ہے، سندھ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کی استدعا سے بالاتر ہوکر ریلیف دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے جو مناسب ریلیف دے، 1861 کے قانون کو 2011 کے قانون کے ذریعے بحال کرنے کی کیا ضرورت تھی، سندھ حکومت پولیس کے لیے نیا قانون بنائے، پورے پاکستان کی پولیس کے لیے یکساں قانون ہوناچاہیے، ایک قانون ہو جس کا اطلاق تمام صوبوں کی پولیس پر ہو جب کہ سندھ حکومت پولیس قانون میں جدت لائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پورے پاکستان میں پولیس کا یکساں قانون نہ ہونا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، آئی جی کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو پولیس ڈسپلن کو کیسے برقرار رکھیں گے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 199 کے اختیار کو آرٹیکل 175 کے ساتھ پڑھاجائے، ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں اور ہائیکورٹ استدعا سے بالاتر ریلیف نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ بنیادی حقوق کی عملداری کے حوالے سے ہدایات دے سکتی ہے، ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے مقدمہ میں بنیادی حقوق کی عمل داری کے احکامات دے تو اعتراض کا جواز نہیں تاہم لوگوں کوہم پرشک ہوجاتاہے، عدالتی فیصلے ہونے بھی ہیں اور ہمارے فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوناہے۔
عدالت صوبائی اسمبلی کو قانون سازی سے روک نہیں سکتی جب کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، قانون مجاز اتھارٹی سے منظور ہوجائے توعدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔