|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2018

سینٹ کی نصف نشستوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد 52 سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے ووٹنگ کی گئی،ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 12 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت یافتہ امیدواروں نے 11 نشستیں جیت لیں جبکہ ایک نشست پر پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کامیاب ہوگئے ۔

پنجاب اسمبلی سے پاکستان مسلم لیگ ن کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں کامران مائیکل، آصف کرمانی، رانا مقبول، اسحاق ڈار، حافظ عبد الکریم، مصدق ملک، سعدیہ عباسی، خالد شاہین بٹ، ہارون اختر، زبیر گل اور نزہت صادق شامل ہیں۔ 

پنجاب اسمبلی میں 368 اراکین نے ووٹ ڈالے ، یہ 100 فیصد ٹرن آؤٹ ہے۔سندھ اسمبلی سے آنے والے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 10سیٹیں جیت چکی ہے اور ایک سیٹ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل جبکہ ایک متحدہ قومی موومنٹ نے جیتی ہے۔اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے کچھ اراکین نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی پی پی کو ووٹ ڈالے ۔ 

کامیاب ہونے والے اراکین میں کرشنا کماری، انور لعل دین، سنجے پروانی، اور ڈاکٹر موہن منجانی شامل ہیں۔ان انتخابات میں بلوچستان اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن، دونوں کی ہی توجہ کا مرکز بنی رہی کیونکہ یہاں پر مسلم لیگ ن میں بغاوت کی اطلاعات سامنے آتی رہیں ہیں۔

بلوچستان سے سینٹ کی 11 نشستوں میں سے 7 جنرل نشستوں پر ایک نیشنل پارٹی، ایک جے یوآئی ف نے جیتی جبکہ دیگر نشستوں پر8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ۔خواتین کی دو نشستوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی عابدہ اور آزاد امیدوار ثنا جمالی نے کامیابی حاصل کی جبکہ ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور مسلم لیگ ن کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار نصیب اللہ کو کامیابی ملی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق فاٹا کی چار نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں ہدایت اللہ، شمیم آفریدی، ہلال الرحمان اور مرزا محمد آفریدی شامل ہیں۔ فاٹا سے 11 اراکین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا تاہم ان میں سے 7 اراکین نے ووٹ ڈالے۔ تین اراکین نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تحفظات کے پیشِ نظر ووٹ نہیں ڈالے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد کی دو سیٹوں میں سے جنرل سیٹ پر اسد علی خان جونیجو اور ٹیکنوکریٹ سیٹ پر مشاہد حسین سید کامیاب ہوگئے ۔سینٹ کی مجموعی 104 نشستوں میں سے 52 اراکین کی مدت مارچ میں مکمل ہو گئی تھی، ان 52 نشستوں کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، چاروں صوبوں اور فاٹا سے مجموعی طور پر 133 امیدوار میدان میں تھے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ جس طرح سینٹ انتخابات سے قبل قیاس آرائیاں سامنے آرہی تھیں خاص کر بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے مگر نتائج اس کے برعکس نکلے۔ 

گوکہ آزاد امیدواروں نے میدان مارلیا مگر انہیں ن لیگ کے منحرف اور ق لیگ کے ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ پشتونخواہ میپ، نیشنل پارٹی نے اپنی پوزیشن اچھی بنائی جبکہ ن لیگ کی جانب سے نصیب اللہ بازئی کامیاب ہوئے مگر گزشتہ روز نصیب اللہ بازئی کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر صوبائی صدر نواب ثناء اللہ خان زہری نے عہدے سے برطرف کردیا تھا تو نصیب اللہ بازئی نے منحرف لیگی ارکان سے ہاتھ ملایا۔ 

اس پوری صورتحال میں جے یوآئی ف کی پوزیشن اچھی نہیں رہی، جے یوآئی ف صرف جنرل نشست پر ایک کامیابی حاصل کی۔سینٹ انتخابات میں زیادہ توجہ بلوچستان پرتھی خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا کہ یہاں ہارس ٹریڈنگ ہوگی مگر سینٹ انتخاب کے نتائج نے ان قیاس آرائیوں کو ردکردیا ۔