گزشتہ روز صدرمملکت ممنون حسین دو روزہ دورے پر بلوچستان آئے، اس دوران صدرممنون حسین سے وزیراعلیٰ بلوچستان، وزراء سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کی۔
صدر ممنون حسین نے ان ملاقاتوں کے دوران سب سے زیادہ فوقیت سی پیک سے جڑے منصوبوں کو دی۔اس دوران صدرمملکت کا کہنا تھا کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان وسطی ایشیاء کااہم ترین ملک بن جائے گا اور ان منصوبوں سے بلوچستان زیادہ ترقی کرے گا،بلوچستان میں ایک سونئے ڈیمز کی تعمیرسے آبی قلت پر قابو پایاجاسکے گا۔
گوادر پورٹ کی بدولت چین کے تجارتی راستوں کافاصلہ کم ہوجائے گا،گوادر پورٹ راہداری سے آمدن کی صورت میں ایک کثیر ریونیو حاصل ہوگی،بلوچستان کونظرانداز کرنے کی سوچ درست نہیں، صوبے کی ترقی کیلئے بہت سے منصوبے جاری ہیں، بلوچستان کامستقبل تابناک ہے،سی پیک کے ویسٹرن روٹ میں ایک انچ بھی تبدیلی نہیں کی گئی ۔صدرممنون حسین کا کہنا تھا کہ سی پیک سے متعلق بدگمانی پھیلانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔
صدر مملکت کی فرمودات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی کے دعوے ہمیشہ اسی طرح ہر دور میں کئے جاتے رہے مگر بدقسمتی سے دہائیوں پر محیط یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ موجودہ ن لیگی حکومت ساڑھے چار سال کے دوران ہمیں کوئی ایک ایسا بڑا منصوبہ نظر نہیں آیا جسے وہ مکمل کرتے یا پھر گوادر پورٹ پر سرمایہ کاری کی جاتی۔
المیہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب خان عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ میں کوئٹہ تشریف لائے تو اس دوران انہوں نے ملتان، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی کی ترقی کی مثالیں دیتے رہے کیونکہ ان کے پاس بلوچستان میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا جس کی وہ مثال دے سکتے ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کوئٹہ جلسہ میں شریک عوام کی کتنی تعداد نواز شریف کی نااہلی کیس سے دلچسپی رکھتی ہے یا انہیں پانامہ و اقامہ کے متعلق معلومات ہوں۔ میاں محمد نواز شریف کی تقریر کتنی پُراثر رہی ہوگی اس جلسہ میں یہ تو ہر ذی شعور جانتا ہے ۔
نواز شریف نے ایک بھی مثال بلوچستان سے متعلق نہیں دی البتہ وہی دلاسا جو سابقہ ادوار میں حکمران دیتے رہے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی کو اب کوئی نہیں روک سکتا، بلوچستان آنے والے وقت میں تمام صوبوں سے آگے جائے گا، بلوچستان کا مستقبل روشن وتابناک ہے۔
ملکی ترقی کی کنجی بلوچستان ہے، ہمارے دور میں جتنے ترقیاتی کام بلوچستان میں ہوئے، ان کی نظیر نہیں ملتی۔ جبکہ زمینی حقائق ان تمام دعوؤں کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا بلوچستان میں نئے ریلوے ٹریک بچھائے گئے، سڑکیں بنائی گئیں، آبی منصوبوں کی تکمیل ہوئی، بلوچستان کو سینٹرل ومشرق وسطیٰ ممالک سے جوڑنے کیلئے کہاں تک کام ہوا۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں گرین بس سروس سمیت کوئی بھی منصوبہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔
سادہ لفظوں میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ آج بلوچستان ترقی کی دوڑ میں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے ۔
ہاں البتہ دعوے آج بھی اسی طرح کئے جارہے ہیں مگر حقائق بہت تلخ ہیں ۔اگر واقعی سی پیک منصوبوں سے بلوچستان ترقی کرے گا تو ضروری ہے کہ اس کیلئے نظرآنے والی سرمایہ کاری بلوچستان میں کی جائے تاکہ دعوے حقیقت کا روپ دھار سکیں۔