پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سینٹ میں اکثریت تھی لیکن مارچ میں پیپلز پارٹی کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہوئے اور ایوانِ بالا میں اس کے ارکان کی تعداد آٹھ رہ گئی تاہم پیپلز پارٹی نے حالیہ سینٹ انتخابات میں نہ صرف سندھ کی 12 میں سے 10 نشستیں جیت لیں بلکہ وہ خیبر پختونخواہ جیسے صوبے میں جہاں اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد صرف چھ ہے، وہاں سے سینٹ کی دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔
خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کی اس کامیابی کوہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی نے خیر پختوانخوا سے دو نشستیں جیتیں۔
انہوں نے لکھا کہ سینٹ انتخابات میں مال و زر کی آمیزش نے صرف ایوان بالا ہی نہیں بلکہ سیاست کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ہے۔دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء فاروق ستار نے بھی پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے رہنما ء چوہدری سرور بھی اراکین کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے باوجود صوبے سے سینٹ کی نشست کے لیے سب سے زیادہ 44 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 30 ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی پختونخوا سے جہاں اسکے محض سات اراکین ہیں، دو نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ خریدنے کے الزامات مستردکو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی نے پیسے دئیے ہیں ،یہ غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت نے بھی دیگر جماعتوں کے اراکین سے بات چیت کی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ لین دین تو ہوا اور سب جماعتوں کے درمیان کچھ انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے تبھی ہمیں بھی کے پی کے میں ووٹ ملے اور تحریک انصاف کو بھی پنجاب میں اضافی ووٹ ملے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ آواز اُٹھانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی اس جوڑ توڑ سے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔
ماضی میں بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ ہارس ٹریڈنگ کو برا کہا اور اسے روکنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی لیکن اب پیپلز پارٹی خودہی ایسا کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں خود سینٹ کو بے توقیر کر رہی ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں ہر جماعت نے جہاں چند اچھے لوگوں کو ٹکٹ دیئے وہیں زیادہ تر ایسے افراد کو ٹکٹ دئیے گئے جن کا شمار امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔
پاکستانی سینٹ کا نصف ایوان یعنی 52 نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج جہاں عمومی طور پر اندازوں کے مطابق رہے وہیں اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی نے سیاسی مبصرین اور ماہرین کو چونکا دیا۔بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے سیاسی بات چیت کے ذریعے حمایت حاصل کی ہے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہیں ۔
متحدہ قومی موومنٹ جو سندھ کی ایک مضبوط جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے مگر حالیہ سینٹ انتخابات نے اس کے مستقبل کو گہنا دیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی اپنی پارٹی پر گرفت جس طرح مضبوط رہی ہے اس بار وہ بھی کمزور دکھائی دی۔ اب خدا جانے کہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا سیاسی حمایت کی بنیاد پر ارکان نے ووٹ کاسٹ کئے ۔ مگر ہارس ٹریڈنگ سے متعلق شکوک وشبہات یقین میں بدل رہے ہیں کہ اس بار سیاسی مفاہمت کم اورلین دین زیادہ ہوئی ہے۔