کراچی: وفاقی وزیربرائے پورٹ اینڈشپنگ میرحاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور آزای کے بانی ایڈیٹر صدیق بلوچ کی وفات پاکستان کی سیاست اور صحافت کیلئے بڑا المیہ ہے۔
صدیق بلوچ نے ہمیشہ آمریت کیخلاف آوازاٹھائی اور اپنے قلم کے ذریعے بلوچستان اور بلوچ عوام کے حقوق کی جدوجہد کی۔ صدیق بلوچ نے شعبہ صحافت میں عزت کمائی اور اپنی صحافت کے ذریعے بلوچستان،لیاری اور متوسط اور پسے ہوئے طبقہ کے مسائل کواجاگر کیا اور ان کی آوازبن کر مسائل کے حل کیلئے کردار ادا کیا۔
شعبہ صحافت میں صدیق بلوچ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے گزشتہ روزکراچی پریس کلب کے تحت سینئرصحافی،دانشور اور روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کوئٹہ کے ایڈیٹرصدیق بلوچ کی یادمیں پریس کلب میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک، جنرل سیکریٹری مقصود احمد یوسفی، صدیق بلوچ کے صاحبزادے عارف بلوچ، سابق سیکریٹری علاؤ الدین خانزادہ، سابق صدور امتیاز خان فاران، فاضل جمیلی، طاہر حسن خان،روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹرانورساجدی، پر وفیسرڈاکٹر توصیف احمد خان، سینئر صحافی سرفراز احمد،سینئر صحافی عابد علی سید، یوسف مستی خان،سینئر صحافی سعید سر بازی ،ماسٹر یار محمد،رؤف ساسولی اور رمضان بلوچ سمیت دیگر بھی موجودتھے۔میرحاصل خان بزنجو کا کہنا تھا کہ صدیق بلوچ سے میرا تعلق بچپن سے ہے۔میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھا۔
اس وقت صدیق بلوچ،مجتبیٰ اور دیگرساتھیوں نے اس وقت بی ایس اوبنائی تھی۔صدیق بلوچ نے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست شروع کردی تھی۔ایوب خان کی آمریت کیخلاف سیاسی ورکر کی حیثیت سے صدیق بلوچ لڑتے رہے۔1970کے الیکشن میں جب پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔
اس کے بعد باقی پاکستان کے مزید دو حصے ہوگئے اور سندھ اور پنجاب اوربلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دوالگ الگ حکومتیں قائم ہوگئی۔جب میرغوث بخش بزنجوگورنربنے تو اس وقت صدیق بلوچ ان کے پریس سیکریٹری تھے۔صدیق بلوچ9ماہ تک گورنر کے پریس سیکریٹری رہے۔اسی دوران ذوالفقارعلی بھٹو نے حکومت توڑ دی۔اس وقت تین افراد کو گرفتار کیا گیاجن میں صدیق بلوچ بھی شامل تھے۔
صدیق بلوچ کو حیدرآباد سازش کیس میں بلوچستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔صدیق بلوچ کی سیاسی زندگی صحافتی زندگی سے زیادہ طویل تھی۔ صدیق بلوچ نے صحافت میں بھی ہمیشہ متوسط طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ کے کاوشوں سے بڑی تعداد میں بلوچ نوجوان صحافت سے وابستہ ہوئے اور شعبہ صحافت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ صدیق بلوچ کا نام صحافتی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ صدیق بلوچ سادہ طبعیت آدمی تھے۔انہوں نے کبھی خودنمائی نہیں کی۔صدیق بلوچ نے کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کو اپنی تحریروں اورخیالات کے ذریعے اجاگر کیا۔
صدیق بلوچ اور انورساجدی نے بلوچستان کے نوجوانوں کوصحافت کی جانب راغب کیا۔صدیق بلوچ اور انور ساجدی ہمارے لیجنڈ ہیں۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ معاشرے میں نظریاتی سیاست اور نظریاتی لوگوں کی کمی کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے۔
صدیق بلوچ صحافت اور سیاست میں پکے نظریاتی تھے اور انہوں نے ہمیشہ اصولی سیاست اور صحافت کی۔ نظریاتی لوگ معاشرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں ۔بڑے سے بڑے مسائل اپنے اوپر سہہ لیتے ہیں۔ قوم کا مستقبل نظریاتی لوگوں سے وابستہ ہے۔ صدیق بلوچ بھی نظریاتی انسان تھے۔
منور حسن نے مرحوم صدیق بلوچ کی صحافتی ، سیاسی اور ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ سیاست اور صحافت کے میدان میں ایک دلیر انسان تھے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں نظریاتی لوگوں کو ایک جگہ جمع ہو کر اپنی نظریات کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ نظریا تی لوگ قوم کے خیر خواہ اور ہماری آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کرسکتے ہیں۔
صدیق بلوچ اپنے شعبے میں ایک مضبوط انسان تھے انہوں نے صحافت اور سیاست میں بھرپور طریقے سے لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔منورحسن نے کہا کہ صدیق بلوچ زمانہ طالب علمی سے نظریاتی سیاست کررہے تھے اور صحافت میں بھی وہ اپنے انہی نظریاتی اصولوں پر کاربندرہے۔
منورحسن اور صدیق بلوچ زمانہ طالب علمی کے دوست تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔سینئر صحافی بابرایاز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ کے ساتھ میراسیاسی اور صحافتی رشتہ تھا۔میں اس وقت کمیونسٹ پارٹی میں تھا ۔ صدیق بلوچ اور میر غوث بخش بزنجو بہت قریبی دوست تھے۔
ڈان اخبارمیں صدیق بلوچ کے ساتھ ہماری سنہری یادیں وابستہ تھی۔صدیق بلوچ ڈان اخبار میں اس وقت کرائم رپورٹر تھے جب کراچی میں پشتون مہاجر کشیدگی شروع ہوئی ۔ وہ اس دور کے پر تشدد واقعات کو کور کرتے تھے۔
حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے تھے لیکن ڈان میں اس وقت ڈیسک پر موجود افراد مہاجروں پر تشدد کے واقعات اور تصاویر کو نمایاں کرتے تھے اور پشتونوں پر مظالم کو کم جگہ دیتے تھے جب میں نے صدیق سے بات کی تو اس نے کہا کہ میری خبروں کو جن میں پشتونوں پر مظالم کا ذکر ہوتا ہے نمایاں نہیں کیا جا رہا جو صحافتی اقدار کے سراسر منافی ہے ۔اس پر صدیق بلوچ بہت نالاں تھے۔
بابر ایاز نے بتایا کہ میں نے اس بات کی شکایت اس وقت ڈان کے ایڈیٹر سے کی ۔ جس کے بعدان کی خبروں کو بہت جگہ ملناشروع ہوگئی۔صدیق بلوچ نے ڈان چھوڑدیا۔اس کے بعد ناصر بروہی کے ساتھ ملکر صدیق بلوچ نے کراچی سے انگریزی اخبار سندھ ایکسپریس اخبارکا اجراء کیا تھا۔
پھر وہ کراچی سے کوئٹہ چلے گئے اور وہاں سے بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کا اجراء کیا۔ وہ بے باک اور نڈر انسان تھے ۔ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق ایم پی اے اکبرمینگل نے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ کے ساتھ ہمارا تعلق بہت گہرا ہے۔صدیق بلوچ ایک ادارہ اور انجمن تھے۔
بلوچستان کے سیاسی، معاشی حالات اور لوگوں کودرپیش مسائل پر صدیق بلوچ کی گہری نظرتھی۔سی پیک اوربلوچستان میں کشیدہ حالات سمیت درپیش چیلنجز کے بارے میں صدیق بلوچ ہمیشہ فکرمندرہتے تھے۔ان کی وفات سے پیداہونے والا خلاء کبھی پرنہیں ہوسکے گا۔
بلوچستان کے حقوق کیلئے بلند ہونے والی اب ہمارے درمیان نہیں رہی ہے۔صدیق بلوچ شعبہ صحافت،بلوچستان کے حالات کوسمجھنے والے تاریخ دان تھے۔یوسف مستی خان کا کہنا تھا کہ صدیق بلوچ کے لیکچرز کی وجہ سے میں نے سیاست میں قدم رکھا ہے۔
صدیق بلوچ سے میری پہلی ملاقات ایس ایم آرٹس کالج میں ہوئی تھی۔جب صدیق بلوچ نے حیدرآباد سازش کیس میں گواہی دینے سے انکار کیا تو صدیق بلوچ اور لالا لعل بخش رندکوبلوچستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔صدیق بلوچ کے ملکی سیاسی حالات اوربلوچستان پر گہری نظرتھی۔صدیق بلوچ نے 15سے20سال پہلی کہاتھا کہ بلوچستان افغان پراکسی وارکامرکز بن جائیگا۔
یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے۔آج سی پیک کی بات ہورہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل ہی آج بلوچستان اور اس کے عوام کے دشمن بن گئے ہیں۔صدیق بلوچ کے بلوچ قوم ،لیاری اور بلوچستان کے عوام پر بہت بڑے احسانات ہیں۔بلوچ قوم کو یہ قرض چکانے کیلئے صدیق بلوچ کے مشن کوآگے بڑھاناہوگا۔
روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹرانورساجدی نے کہا کہ صدیق بلوچ کی زندگی کے 50سال یوسف مستی خان اور 28سال میرے ساتھ گزرے ہیں۔اخبارسے قبل ہم دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ صدیق صاحب کوحیدرآباد سازش کیس میں جیل میں ڈال دیاگیا۔
صدیق بلوچ جب کراچی سے بلوچستان منتقل ہوئے تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان میں سوشل لائف گزارنامشکل اور طرززندگی مختلف ہے۔صدیق بلوچ ترقی پسندتھے۔بلوچستان کے موجودہ حالات نے صدیق بلوچ کو پریشان کردیاتھا۔ان کے اخبارات بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی پرپابندی لگی۔جوانہوں نے برداشت کی۔ یہاں تک ہوا کہ خبروں کی اشاعت بھی بند ہوگئی جس پر وہ مایوس ہوگئے۔
ہم دونوں وزیراعلی ثناء اللہ زہری کے پاس گئے تو ان کے اسٹاف نے مزاحمت کی۔وزیراعلی کو بتایا گیا کہ ان دونوں اخبارات کے اشتہارات نہیں کھول سکتے۔ان واقعات کے کچھ دن بعد ہی وزیراعلی بھی تبدیل ہوگئے۔کراچی پریس کلب کے سیکریٹری مقصود یوسفی نے کہا کہ صدیق بلوچ ایک نڈر صحافی تھے۔
ان کے انتقال سے صحافت کا ایک ستارہ غروب ہوگیا ہے۔ صحافت ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئی ہے۔ صدیق بلوچ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی صحافتی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک نے تعزیتی ریفرنس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ ایک سچے صحافی تھے اور صحافت میں بڑی بہادری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ صدیق بلوچ نے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی ان کے انتقال کے بعد اس خلا کو پر کرنا مشکل ہے۔ پاکستان ایک سچے صحافی اور دانشور سے محروم ہوگیاہے۔
سینئر صحافی سرفرازاحمد کا کہنا تھا کہ میں نے جب خلیج ٹائمز چھوڑ کر ڈان اخبار جوائن کیا تو اس وقت صدیق بلوچ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔صدیق بلوچ نے ناصربروہی کے ساتھ ملکر اپنااخبارسندھ ایکسپریس نکالا۔صدیق بلوچ نے مجھ سے کہاجب تک تم جوائنگ نہیں دیتے اس وقت تک میرے ساتھ سندھ ایکسپریس میں کام کرو۔میں نے ایک ماہ تک ان کے ساتھ کا کیا۔
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ لیاری سے تعلق رکھنے والا شخص پاکستان کاسب سے بڑا اخبار ڈان کیوں چھوڑ رہاہے؟ڈان کوچھوڑ کراپنااخبارنکالے والے صرف دو لوگ تھے جن میں ایک احمد زبیری تھے جنہوں نے اپنااخباربزنس ریکارڈر نکالا اور دوسرے صدیق بلوچ جنہوں نے سندھ ایکسپریس نکالا۔ آج ان کے دواخبارات ہیں جوبلوچستان کے علاوہ بھی پاکستان میں نمایاں جگہ بناچکے ہیں۔
صدیق بلوچ مڈل ایسٹ کے نقشوں سے اس طرح واقف تھے جیسے وہ کسی کولیاری کی گلیوں کے نقشے سمجھارہے ہوں۔صدیق بلوچ بلوچوں کے حقوق کیلئے آزادی کے ساتھ لکھناچاہتے تھے جوڈان میں رہ کر کسی صورت ممکن نہیں تھا۔یہی وہ وجہ تھی کہ صدیق بلوچ نے ڈان اخبارچھوڑ کر اپنے اخبارات نکالے اور بلوچستان اور بلوچوں کے حقوق کیلئے آوازبلندکی۔سینئرصحافی ڈاکٹر جبارخٹک کا کہنا تھا کہ صدیق بلوچ اسٹیٹس کانشیس نہیں تھے۔
سائیکل پر ٹوپی پہنے گورنر ہاؤس اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں رپورٹنگ کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے جایاکرتے تھے۔حالیہ دورہ چین میں صدیق بلوچ ہمارے ساتھ گئے۔اس دورہ میں صدیق بلوچ شدیدمایوس تھے۔کینسرکی بیماری سے زیادہ سماجی کینسر کی بیماری کامقابلہ نہ کرسکے۔
ان کی خدمات فراموش نہیں کرسکتے۔سینئرصحافی طاہرحسن خان کا کہنا تھا کہ وفات سے چندگھنٹے قبل ہی صدیق صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی۔صدیق بلوچ اس وقت بھی بضدتھے کہ میں ٹھیک ہوں مجھے لیپ ٹاپ لاکردیں میں اخبار کیلئے ایڈیٹوریل لکھناچاہتاہوں۔تعزیتی ریفرنس کے آخر میں صدیق بلوچ مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔