پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں غلام خان کے مقام پر پاک افغان سرحد ہر قسم کی تجارت کے لیے آزمائشی طور پر چار برس کے وقفے کے بعد دوبارہ کھول دی گئی ہے۔گزشتہ روز سرحد کھلنے کے بعد تین کنٹینر افغانستان کی جانب روانہ ہوئے ہیں جنہیں وہاں موقع پر موجود پولیٹکل انتظامیہ اور دیگر حکام نے رخصت کیا۔
طورخم اور چمن کے بعد غلام خان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کا تیسرا بڑا راستہ سمجھا جاتا ہے اور اس راستے کے ذریعے ہونے والی تجارت کا فائدہ خیبر پختونخوا کے جنوبی پسماندہ اضلاع کو ہو گا۔فاٹا سیکریٹریٹ کے ترجمان عبدالسلام وزیر کاکہناہے کہ یہ سرحد آزمائشی بنیادوں پر کھول دی گئی ہے۔
ان کاکہناتھاکہ دونوں ممالک کے درمیان یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ہفتے میں چار دن پاکستان سے اور دو دن افغانستان سے گاڑیاں سرحد عبور کریں گی۔ سرحد پر تمام انتظامات کیے جا رہے ہیں جیسا کہ طور خم اور چمن بارڈ پر ہیں جہاں تمام متعلقہ اداروں کے دفاتر قائم ہیں اور ایک نظام کے تحت گاڑیاں سرحد عبور کرتی ہیں۔عبدالسلام وزیر نے کہا کہ بہت جلد یہ سرحد ہر قسم کی ٹریفک کے لیے مستقل بنیادوں پر کھول دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ان علاقوں میں امن قائم کر دیا گیا ہے تاہم پھر بھی یہاں سے جانے اور آنے والی گاڑیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے سکیورٹی اداروں کے اہلکار اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار موجود ہوں گے۔
غلام خان سرحد کے راستے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے افغانستان کے صوبے پکتیکا میں خوست تک ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔گذشتہ چار برس میں تین مرتبہ اس سرحدی گزر گاہ کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن آخری مرحلے میں یہ فیصلہ ملتوی کر دیا گیا۔غلام خان سرحد شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں فوجی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بند کی دی گئی تھی۔
وزیرستان اور خیبر پختونواہ کے جنوبی اضلاع میں تاجر برادری نے سرحد کھولنے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کی خواہش تھی کہ یہ سرحد جلد کھول دی جائے ۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد کھلنے سے پاکستان میں میرانشاہ اورافغانستان کے شہر خوست میں تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے دونوں جانب لوگوں کو روزگار کی سہولیات میسر آتی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو اولین ترجیح دی ہے اور کبھی بھی تجارتی راستوں پر کوئی سختی یا پابندی عائد نہیں کی ہاں البتہ دہشت گردی کے پیش نظر یہ معاملات سامنے آتے رہے ہیں مگر پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران سے تجارتی تعلقات کو مضبوط ومستحکم بنایاجاسکے۔
پاک ایران تجارتی گیٹ وے تفتان جس کی بندش کی وجہ سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ انتہائی متاثر ہوکر رہ گیا ہے کروڑوں روپے روزانہ تاجر برادری کو نقصان اٹھانا پڑرہا ہے جبکہ عام لوگوں بھی شدید متاثر ہوکر رہ گئے ، تفتان زیرو پوائنٹ کی بندش سے بلوچستان کے چار اضلاع نوشکی، چاغی، واشک اور خاران میں تجارتی سرگرمیاں ماند رہ گئی ہے ۔
لہٰذا ایرانی حکام اس اہم نوعیت کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے جلد اس کے کھولنے کیلئے اقدامات اٹھائے تاکہ تاجر برادری سمیت عوامی مسائل میں کمی آسکے۔