|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2018

چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے کہا ہے کہ پاکستانی سینٹ کے ارکان کے انتخاب میں ہونے والی مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی اداروں سمیت خفیہ اداروں کی بھی مدد لی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ ووٹ خریدنے والے بھی ارکان اسمبلی ہیں اور بکنے والے بھی ارکان اسمبلی ہی ہیں۔سینٹ کے ارکان کے انتخاب میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری بدھ کو کمیشن کے سامنے پیش ہوئیں۔

ن لیگ کی مریم اورنگ زیب اور عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ہونے والے سینٹ کے رکن چوہدری سرور نے کہا ہے کہ انہیں حکمراں جماعت کے چھ ارکان نے ووٹ دیئے تاہم وہ ان کے نام بتانے سے گریزاں ہیں۔انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے استدعا کی کہ چوہدری سرور کو طلب کر کے ان چھ ارکان کے نام پوچھے جائیں جنہوں نے ان کے بقول انہیں ووٹ دئیے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں ان کی معاونت چاہتے ہیں اور کمیشن چوہدری سرور کو بھی طلب کرے گا۔جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے کہا کہ سیاست دانوں کی جانب سے سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں دئیے گئے بیانات ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ووٹ خریدنا اور بیچنا جرم ہے جس کے سدباب کے لیے الیکشن کمیشن کو سیاست دانوں کی مدد درکار ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شاہد گوندل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جماعت کے سربراہ نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد ہی اس بارے میں رپورٹ عمران خان کو پیش کرے گی۔ایم کیو ایم کے وکیل نے بھی الیکشن کمیشن کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سینٹ ارکان کے انتخاب میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے معاملے پر کوئی بھی الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوا۔بیشتر سیاسی جماعتیں سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی باتیں کررہی ہیں جس کا برملا اظہار انہوں نے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد ایوان بالا میں کیا ، اس تمام دورانیہ میں سب سے زیادہ موضوع بحث بلوچستان رہا۔

عدم اعتماد کی تحریک سے لے کرچیئرمین سینٹ کے چناؤ کے معاملے تک بلوچستان کو بنیادبنایاگیا۔ سب سے پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت بلوچستان میں اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے ختم کی گئی۔ عدم اعتماد کی تحریک میں مسلم لیگ ن ، ق لیگ سمیت حکومتی واپوزیشن جماعتوں نے بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے ن لیگ کی حکومت خود کو بچانے میں ناکام رہی۔ 

پھر اس معاملے کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کی گئی۔ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں اس سے قبل بھی بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی اور اس وقت بھی مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اس دوران کونسی قوتوں کا ہاتھ تھا، الزامات لگانااور انہیں ثابت کرنادو الگ معاملات ہیں پھر اسی طرح 2018ء میں مسلم لیگ ن کو اسی مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا اور بی این پی نے عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دیا۔ 

بلوچستان میں پیدا ہونے والی اس سیاسی صورتحال کو سینٹ سے جوڑا گیا اور پیپلزپارٹی کی مداخلت کا ذکر بھی کیاگیا۔چیئرمین سینٹ کا معاملہ جب آیا تو وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے اور چیئرمین شپ بلوچستان کو دینے کی بات کی ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس سلسلے میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں جو رنگ لائیں اور اس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ بہرحال اس تمام صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے بھی تجزیہ کیاجاسکتا ہے مگر بدقسمتی سے جو آج الزامات لگارہے ہیں کل تک ان پر بھی یہی الزامات لگتے رہے ہیں۔ 

ملک میں سیاسی استحکام، اداروں کی مضبوطی سمیت کرپشن سے پاک معاشرہ قائم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ بدقسمتی سے حکمرانوں نے اس پر توجہ دینے کی بجائے انتقامی کارروائیوں میں اپنا وقت ضائع کرتے رہے اور اداروں کی مضبوطی پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج انہیں خود ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کا الزام کسی اورکو دینا سراسر زیادتی ہے۔ یہ ایک سیاسی جنگ ہے جسے سیاسی طریقے سے ہی لڑی جاسکتی ہے کیونکہ ملکی حالات مزید کسی سیاسی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔