پاکستان میں حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے ایوانِ بالا یعنی سینٹ میں خاتون رہنما ء اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والی شیری رحمان کو قائد حزبِ اختلاف کے طور پر نامزد کیا ہے۔
ان کی نامزدگی کا اعلان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔شیری رحمان کا کہنا ہے کہ خواتین کی حوصلہ افزائی ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے کلچر کا حصہ رہا ہے جس کی ایک مثال خود بینظیر بھٹو کی زندگی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان سے پہلے قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن ایک مضبوط رکن پارلیمان رہے ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لیے مجھے بہت تندہی سے کام کرنا ہوگا۔
اس سوال پر کہ کیا پاکستان تحریک انصاف بھی ان کی نامزدگی کی حمایت کرے گی، شیری رحمان نے کہا کہ ہم مشترکہ طور پر بہتری کے پیغام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان کو اس کی ضرورت ہے۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ انتخابات کے اس سال میں دیگر افراد کے انتخاب پر تو رائے نہیں دے سکتی تاہم حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے یہ عہدہ پیپلز پارٹی کا حق ہے۔
اس سے پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے کیونکہ اب سینٹ میں پہلی بار قائدِ حزبِ اختلاف ایک خاتون ہوں گی۔دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماء شفقت محمودکا کہنا ہے کہ جہاں تک انہیں معلوم ہے دونوں جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر کوئی مشاورت نہیں ہو رہی۔
قائدحزب اختلاف کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک بار پھر رابطے جاری ہیں اوراس بار مقابلے میں ن لیگ نہیں بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے قائدحزب اختلاف لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔
قائدحزب اختلاف کے معاملے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سینٹ انتخابات میں آصف علی زرداری نے اپنے کارڈز کو بہتر انداز میں کھیلا، سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں محمد نواز شریف کو دو سال قبل متوجہ کیاتھا کہ وہ الیکشن کے آخری سال میں سیاست کرینگے اور جس طرح آصف علی زرداری نے جنرل انتخابات سے قبل سینٹ الیکشن میں اس کی ایک جھلک دکھائی اس نے ملکی سیاست کا رخ ہی موڑ دیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ تو ہوئی ہے اور یہ لین دین کا معاملہ بھی سیاستدانوں کے درمیان ہی رہا ہے جس سے ملکی سیاست پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں مگر یہ بات کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کی جماعت ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہی ہے ہاں البتہ یہ ضرورکہاجارہا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ نہیں بلکہ ہماری سیاسی حمایت کی گئی ہے مگر اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے اور اس کا نقصان سیاسی حوالے سے ہی ہوا ہے۔
دوسری جانب یہ موضوع بھی اب زیر بحث ہے کہ جنرل الیکشن سے قبل نگراں حکومت پر اتفاق رائے پیدا ہوجائے گا جو ایک مشکل مرحلہ نظرآرہا ہے کیونکہ جو سیاسی کشیدگی نظرآرہی ہے اور جس طرح کے سیاسی نتائج سامنے آرہے ہیں اس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے خاص کر بڑی جماعتوں میں انتہائی مشکل ہے۔
انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے سب متفق ہیں مگر جس طرح مرحلہ وار سیاست آگے بڑھتی جارہی ہے اس میں ماحول زیادہ گرم ہوتی نظرآرہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے جوتا ماری تک نے ہماری سیاست کوبری طرح متاثر کرکے رکھ دیا ہے جو کسی طرح بھی ملکی سیاسی کلچر کیلئے بہتر نہیں۔
اب فیصلہ ہمارے سیاستدانوں کو ہی کرنا ہے کہ انہیں ملک میں سیاسی اقدار اوراصولوں کو کس طرح برقرار رکھتے ہوئے سیاست کی بہترین مثال قائم کرنا ہے۔