|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2018

ریکوڈک مسئلے پر عالمی بنک کے ایک ٹریبونل نے کمپنی کے حق میں اور حکومت پاکستان کے خلاف فیصلہ دیاتھا ۔ جبکہ ہمارے یہاں یہ تاثر دیاجارہا تھا کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے ۔ پھر حکومت کی طرف سے کوئی واضح مؤقف بھی سامنے نہیں آیا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی کہ نہیں۔ 

کاپر اور سونے کے کان ریکوڈک کو ابتداء سے ہی کرپٹ آفیسران کیلئے رشوت کا ذریعہ بنادیا گیا ، حد تو یہ ہے کہ بلوچستان حکومت کا ایک ادنیٰ آفیسرمکمل اختیارات کے ساتھ دہائیوں فوکل پرسن رہا۔اس پر مزید ظلم یہ کہ کسی نے ان معاہدوں کو پڑھا ہی نہیں جو کمپنی کے ساتھ کیے گئے۔ پہلا معاہدہ آسٹریلوی کمپنی کے ساتھ کیا گیا، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بعض سیاستدانوں نے تو آسٹریلیا میں اپنا حصہ غیر ملکی کرنسی میں وصول کیا۔ 

آئے دن آفیسران اور سیاستدانوں کو بیرونی ملک کے دورے اس کرپٹ اور بے ایمان فوکل پرسن کے ذریعے کرائے گئے۔ جب موجودہ کمپنی سے تنازعہ ہوا اور حکومت نے اس کو کان کنی کی اجازت دینے سے انکار کیا تو کسی حد تک تحقیقات کی گئیں۔ ابتدائی تحقیقات سے چند ایک بڑ ے آفیسران کو سرکاری تحویل میں لیاگیا تو ان سب نے اطلاعات کے مطابق بڑی بڑی رقوم کمپنی سے لینے کا اعتراف کیا۔

تفتیش کاروں نے یہ اطلاعات ابھی تک عوام کو نہیں بتائیں کہ ریکوڈک میں کتنی کرپشن ہوئی ہے۔ اس منصوبے سے متعلق کمپنی نے معاہدہ اپنی مرضی سے اور اپنے مفاد میں تحریرکروایا، افسر شاہی کے احکامات کے تحت سیاسی حکمرانوں نے اس کو تسلیم کیااور اس معاہدے کو پڑھنے کی زحمت تک نہ کی اور نہ ہی بلوچستان کی قومی دولت کو لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کیا۔ ان کو صرف اپنے حصے کی رقم سے غرض تھی ۔

بعض ماہرین معاشیات کو پہلے ہی سے یہ اندازہ تھا کہ فیصلہ حکومت کے خلاف آئے گی اور کمپنی مالکان اس فیصلے کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے خصوصاً سیاسی ہتھیار کے طور پر اوریہ تاثر دیا جا ئے گا کہ پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری میں ناکام رہا۔

ریکوڈک کا معاہدہ حکومت پاکستان نے کیا ، وفاق نے بلوچستان کو کبھی یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے طور پر کسی ملک یا کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے، سیندک اس کی واضح مثال ہے جو بلوچستان کی ملکیت تھی لیکن معاہدہ اسلام آباد نے کیا،صرف ڈھائی فیصد بلوچستان کو دے کر اٹھانوے فیصد اسلام آباد اور چین لے گئے۔ 

ریکوڈک کیس فیصلے کے بعد تما م تر معاملات کو بلوچستان کے سر تھوپنا سراسر نا انصافی ہوگی اس لیے اگر تیس کروڑ یا چالیس کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد ہوتا ہے تو وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار ہے ،صوبائی حکومت نہیں یہ رقم وفاقی حکومت کو اپنی پالیسی کی وجہ سے ادا کرنی ہوگی۔ 

پہلے بعض ذرائع یہ کہہ رہے تھے کہ حکومت عدالت سے باہر تصفیہ کرے اور جتنی بھی رقم کمپنی طلب کرے اس کو مان کرریکوڈک کے لیے نئے سرمایہ کار تلاش کیے جائیں اور ان سے رقم لے کر جرمانہ یا مطلوبہ رقم کمپنی کو ادا کی جائے۔شنید میں یہ بھی آیا کہ سابق وزیراعلیٰ کودباؤ میں رکھا گیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے جرمانہ یا مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے لیے بلوچستان کے فنڈز روکنے کا اشارہ بھی دیا گیا۔ 

ہر ذی شعور اس بات کو جانتا ہے کہ بین الاقوامی سیاسی ‘ معاشی ‘ تجارتی معاملات میں بلوچستان کی کوئی حیثیت نہیں دی جاتی ۔لوگ یہ تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی سابق وزیر اعلیٰ نے کی تھی۔ 

اتنے بڑے بین الاقوامی اثرات کا حامل فیصلہ کمزورترین بلوچستان کا وزیراعلیٰ اپنی اختیارات کے تحت نہیں کر سکتا، ضرور ان کوو فاقی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہو گایا وفاقی نوکر شاہی کی جانب سے حکم دیا گیا ہو گاکہ TCCکو لائسنس نہ دیں کہ وہ تانبا اور سونے کے منصوبے پر کام شروع کرے۔ 

ایک بات تو طے ہے کہ ریکوڈک بلوچستان کی ملکیت ہے اور وفاق کو اپنی اس روش کو تبدیل کرنا چاہئے کہ بلوچستان سے متعلق تمام فیصلے تن تنہاکرے ۔ بدقسمتی سے 18ویں آئینی ترمیم کے باوجود بلوچستان آج بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔

ریکوڈک پرصوبائی حکومت بین الاقوامی کمپنیوں کی بجائے خود سرمایہ کاری کرے کیونکہ ہمارے پاس ایسے اہم نوعیت کے منصوبوں کو چلانے والے ماہرین موجود ہیں جس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بلوچستان اس میگا منصوبہ پر بااختیار ہو گا اور تمام معاشی فائدے خودحاصل کریگا نیز اپنے صوبے کے حقیقی باشندوں کو روزگار بھی دے سکے گاجس سے بلوچستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ 

موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے ریکورڈک اور سیندک پروجیکٹ سمیت کسی بھی معاہدے پر بلوچستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام نہ کرنے کے عزم کااظہار کیا ہے جو قابل تحسین ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی نوید سنادی ہے کہ لندن جاکر صوبے کا مقدمہ لڑیں گے جس طرح یہاں کے عوام کی خدمت کررہے ہیں اسی طرح بلوچستان کے ساحل و و سائل کی جنگ بھی لڑیں گے ۔

امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پربھی بلوچستان کے حقوق کا تحفظ کرینگے اوراسلام آبادسے بلوچستان کے وسائل واختیارات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔