ڈالر کی قدر بڑھ کر 115.50 روپے تک پہنچ گئی جس کے بعد کرنسی کا کاروبار کرنے والوں اور ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب ہے۔
اسٹیک ہولڈرز اس بنیاد کوقابل قبول نہیں سمجھ رہے، معاشی ماہرین کاکہناہے کہ آئی ایم ایف پہلے ہی ڈالر کی موجودہ قیمت کو 120 سے 125 روپے تک پہنچانے کااشارہ دے چکی ہے ڈالر کی قیمت میں اضافہ اسی سلسلے کی کڑی ہے اورڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا اثر عام عوام پرپڑے گا، خاص طور پر جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور یہ اضافہ مہنگائی ساتھ لے کر آئے گا۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں بہت کمی آ گئی ہے جس سے انہیں قرضوں کی ادائیگی میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیا گیا ہے جس طرح دسمبر 2017ء میں روپے کی قدر گرگئی تھی اور ڈالرکی قیمت میں اضافہ ہوا تھا۔ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر سے پاکستان کی ٹیکسٹائل اور دیگر برآمدی صنعت سے وابستہ افراد میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے البتہ درآمد کنندگان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
معاشی ماہرین کاکہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ اور ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔
اگر ایک ڈالر 100 روپے کے برابر ہو اور ایک ارب ڈالر کا قرضہ ہو تو اس حساب سے 100 ارب روپے کا قرضہ ہوگا لیکن اگر ڈالر 110 کا ہوجائے تو قرضہ بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا۔دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی سے ملکی برآمدات کرنے والوں کو بظاہر فائدہ ہوتا ہے چونکہ برآمد کرنے والے کو اپنی چیز کی زیادہ قیمت مل رہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پیداواری لاگت میں رہتے ہوئے اشیاء کی قیمت میں کمی کر سکتا ہے۔
اس طرح عالمی منڈی میں برآمدات بڑھ جاتی ہیں اوراس سے جاری کھاتے یا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی کم ہوجاتا ہے۔جب سے موجودہ حکومت آئی ہے پاکستان کی برآمدات مستقل گر رہی ہیں اور درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے جاری سیاسی افراتفری اورعدالتی کارروائی کی وجہ سے اب تک بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے جس سے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں پانچ ارب ڈالرسے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ڈالر کی بڑھتی قیمت کے بعد ایک افراتفری سی مچ گئی ہے موجودہ صورتحال کا نتیجہ عوام پر مہنگائی کا بم گرنے کی صورت میں سامنے آئے گا کیونکہ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کیاجائے گا، سونا،پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بھی بڑھ جائینگی ۔
بعض ماہرین اسے ناقص معاشی منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں نیز قرضوں کا بھاری بھرکم بوجھ بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ بہرحال جس تیزی کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی آئی ہے یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے ،ڈالرکی بڑھتی قیمت مہنگائی کے نئے طوفان کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔
ڈالرکی بڑھتی قیمت ،مہنگائی کے نئے طوفان کاپیش خیمہ
وقتِ اشاعت : March 22 – 2018