2013ء میں بننے والی بلو چستان کی مخلوط حکومت نے رئیسانی دور میں عدالتی فیصلے کے بعد ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قرار دینے کے بعد پھرتی سے کام کاآغاز کیا ۔
اس دوران بیرون ملک کیس کی سماعت کے دوران خودسابق وزیراعلیٰ بلوچستان بھی عالمی عدالت انصاف میں گئے ۔کیس کے دوران یہ بات ذرائع ابلاغ میں آئی کہ کورٹ نے فریقین کو آؤٹ آف کورٹ بھی آپس میں معاملے کو حل کرنے کیلئے بات چیت کا موقع دیا، مگر شنید میں یہی آیاکہ کمپنی نے بات چیت میں زیادہ لچک کا مظاہرہ نہیں کیا اور جرمانہ پر ہی زور دیا۔
سابق دور حکومت میں ریکوڈک کیس کی پیشرفت کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے کانفرنس ہال میں بریفنگ کا اعتمام کیا گیا جس میں سابق وزیراعلیٰ سمیت اراکین اسمبلی کو ریکوڈک کیس کے لیگل ایڈوائزر ایڈووکیٹ احمر بلال صوفی نے بریفنگ دی ۔اس میں میڈیا نمائندگان بھی شریک تھے،ایڈووکیٹ احمر بلال صوفی نے اس انداز میں بریفنگ دی جیسے ریکوڈک کیس کا فیصلہ بلوچستان کے حق میں آیا ہے ،جو ریکارڈ حصہ ہے۔
ایڈووکیٹ بلال احمر صوفی کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کیس میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں بین الاقوامی کمپنی کی ہمارے خلاف دو درخواستیں عالمی عدالت انصاف نے مسترد کردی ہیں جبکہ سا بق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبے سے متعلق کوئی بات کسی سے نہیں چھپائی جائے گی ۔کیس جیتنے کے بعد مختلف آپشن زیر غور ہیں کہ منصوبے کو انٹر نیشنل حوالے سے ٹینڈر کی صورت میں رکھیں یا کسی بھی کمپنی کو ٹھیکہ میں دے دیں جس کا برائے راست فائدہ عوام کو مل سکے ۔
بہرحال حکومتی تسلسل وہی ہے البتہ اس دوران تیسرے نئے وزیر اعلیٰ نے کابینہ سمیت اپنا منصب سنبھال لیا ہے ۔یقیناًسابق وزیراعلیٰ کے دور میں ایسی کوئی کامیابی نہیں ملی جس کا ڈھول اس قدر پیٹا جارہا تھا اور زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس تھے۔ریکوڈک منصوبہ پر کمپنی نے اپنے نقصانات کی بات کی ہے ۔اس اہم منصوبہ سے ہمارے یہاں بعض شخصیات نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
اطلاعات کے مطابق اس اہم منصوبہ کے دوران بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی اوراس منصوبے سے اب تک عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ سابقہ حکومت اگر ان شخصیات پر ہی ہاتھ ڈال دیتی جو اس منصوبے میں ہاتھ صاف کرنے میں ملوث تھے تو یقیناًاس سے عوام کو تسلی ملتی کہ کیس میں کامیابی کی بجائے کم ازکم کرپشن میں ملوث عناصر کو تو قانون گرفت میں لایا گیا ہے ۔ افسوس کہ اس معاملے پر غور تک نہیں کیاگیا۔
موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو ان دنوں ریکوڈک کیس سے متعلق بیرون ملک دورے پر ہیں اور اطلاعات کے مطابق کمپنی کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں تاکہ معاملے کو حل کیاجاسکے۔ شنید میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے سے خود کو لاتعلق کرلیا ہے اس طرح صوبائی حکومت کو ہی جرمانہ کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔
المیہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے وسائل کاسودااپنی مرضی سے مختلف کمپنیوں اور ممالک کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے پیش نظرصرف اپنا فائدہ اور منافع ہوتا ہے ایسے سودوں میں بلوچستان کو پوچھا تک نہیں جاتا اورمال مفت دل بے رحم کے مصداق بلوچستان کے عوام کا مستقبل کوڑیوں کے مول بیچا جاتا ہے ، ایسے موقعوں پر وفاق کی طرف سے اہل بلوچستان کے لیے اپنائیت کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا ۔
سوئی گیس، سیندک اور گودار پورٹ سے متعلق منصوبے اس کی واضح مثالیں ہیں، سیندک کا تو سارا منافع اسلام آباد اور چین مل کر کھارہے ہیں اور بلوچستان کے منہ میں ڈھائی فیصد کی چوسنی دے کے اسے چپ کرایا گیا ہے۔گوادر پورٹ سے متعلق معاہدے میں بھی بعینہ یہی صورتحال سنائی دے رہی ہے کہ اس کی بھی ساری کمائی اسلام آباد اور چین مل کر کھائیں گے اور بلوچستان کو صرف پانچ سے دس فیصد پر ٹرخایا جائے گا۔
لیکن ریکوڈک کیس کی طرح جب کہیں معاملات خراب ہوتے ہیں تو وفاق ایسے لاتعلق بن جاتا ہے جیسے وہ بلوچستان کو جانتا تک نہیں۔بہرحال آثار یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ جرمانے کی ادائیگی کے لیے موجودہ حکومت ریکوڈک منصوبہ کو ٹینڈر کرے گی اور اس کے ساتھ ہی جو کمپنی معیار پر پورا اترے گی اس کے ساتھ معاہدہ کیاجائے گا اوراس سے حاصل شدہ رقم سے جرمانہ کی ادائیگی کی جائے گی۔
موجودہ حکومت نے اس حوالے سے ابھی تک اطلاعات میں کوئی ابہام پیدا نہیں کیا اور نہ ہی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا ہے ۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت کم ہے اور اس اہم نوعیت کے منصوبہ کو اپنے اس مختصر دور میں شروع کرپائے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہے ۔ امید یہی کی جارہی ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت منافع بخش منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچائے گی جن پرپہلا حق یہاں کے عوام کا ہے۔
ریکوڈک منصوبہ،سب سے پہلے بلوچستان
وقتِ اشاعت : March 23 – 2018