|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2018

بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر نے سے قلت آب کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتاجارہا ہے۔ بلوچستان میں نصف صدی قبل کاریز اور چشموں کا پانی دور دور تک بہتا دکھائی دیتا تھا اور 20 سے 25 فٹ کے فاصلے پر کنوؤں کی کھدائی پر پانی نکل آتا تھا۔

پھر جن علاقوں میں بجلی دستیاب ہونے لگی تووہاں ٹیوب ویلزلگنا شروع ہو گئے جس میں خاص کر غیر قانونی ٹیوب ویلز شامل ہیں جس کے تدارک کیلئے تاحال ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں ۔اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی بہتر منصوبہ بندی نہیں کی گئی نہ تو ڈیمز بنائے گئے اور نہ ہی غیر قانونی ڈرلنگ کو روکنے کیلئے قانون سازی کی گئی ۔ 

صوبے کے طول وعرض میں 6 ہزار سے زائد ٹیوب ویلز زیر زمین کوپانی نکال رہے ہیں اور رہی سہی کسر طویل خشک سالی اور آبادی کے اضافے نے پوری کر دی ہے۔بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح دو ہزار فٹ تک گر جانے سے بیشتر اضلاع میں زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کوئٹہ اور گوادر کے عوام کو پینے کے پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔

ماہرین کاکہناہے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زمین سالانہ 10 سینٹی میٹر دھنس رہی ہے۔کوئٹہ کے باسیوں کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واسا حکام کے مطابق کوئٹہ میں پانی کی ضرورت 5 کروڑ گیلن روزانہ ہے مگر واسا کی جانب سے شہریوں کو 3 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ2 کروڑ گیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔کوئٹہ شہر میں واسا کے 417 ٹیوب ویلز ہیں جن میں 100 کے لگ بھگ ٹیوب ویلز خراب ہیں۔واسا حکام کے مطابق کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کیلئے منگی ڈیم پر کام جاری ہے جو 2 سال میں مکمل ہو جائے گا، اس ڈیم سے شہر کو یومیہ 8 کروڑ گیلن پانی مل سکے گا، جس سے شہر میں پانی کا مسئلہ کچھ عرصے کے لیے حل ہوجائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں آبی مسئلے کا حل موجود ہے مگر اس پر خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ ضلع چاغی میں زیرزمین پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کی ماہرین نے نشاندہی بھی کی ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ اس وقت بلوچستان میں پانی کے بحران کی وجہ سے بعض اضلاع کو قحط سالی کا سامنا ہے اور بعض علاقوں میں مختلف وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں جو میڈیا نے باقاعدہ رپورٹ کئے۔ 

بدقسمتی سے حکومتی سطح پر پانی مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے صرف اعلانات کئے جاتے ہیں عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ ماضی کی حکومت نے 100 ڈیمز بنانے کا اعلان کیا لیکن تاحال ان ڈیموں کی تعمیر سے متعلق کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے کہ ان منصوبوں پر کام کس حد تک ہوا ہے ۔ کچھی کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا اعلان کیا گیا مگر زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں محض دعوے ہی کئے گئے عملی طور پر زمین پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔

حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں آبی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کرے ۔کوئٹہ اور گوادر جو بلوچستان کے اہم ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں یہاں درپیش آبی مسائل سے صوبے کے دیگر اضلاع میں پانی کی قلت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے ۔ اس اہم نوعیت کے مسئلے پر سنجیدگی سے کام نہیں کیاجارہا ، اگر صورتحال یہی رہی تو لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونگے ۔ 


آبی مسائل کو حل کرنے کیلئے غیر قانونی بورنگز کے خلاف بھی سخت کارروائی ضروری ہے خاص کر کوئٹہ کے گرد ونواح ایسے ہزاروں ٹیوب ویلز لگائے گئے ہیں جو تیزی سے زیر زمین پانی کو نکال کر اسے تجارتی بنیادوں پر بیچ رہے ہیں،جس سے ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ پانی خرید کر استعمال کررہا ہے اور جس کے پاس پیسہ نہیں وہ پانی کے کین اٹھا کر کبھی یہ در تو کبھی وہ در پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

یہ صورتحال ایک سولائزڈ معاشرے کے منہ پر طمانچہ کے برابر ہے۔اپنے عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی حکومت وقت کا فرض ہوتا ہے اور جس حکومت میں ان فرائض سے عہدہ براء ہونے کی صلاحیت نہیں ، اسے عوام پر حکومت کرنے کابھی کوئی حق نہیں۔لہذا اس اہم نوعیت کے مسئلے سے آنکھیں چرانے کی بجائے اس کو حل کرنے پر توجہ دیں اور ایک عوامی حکومت ہونے کا ثبوت دیں۔