|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2018

بلوچستان سیاسی تاریخ کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتا ہے، قیام پاکستان سے قبل موجودہ حکومت تک اس سرزمین نے بڑی بڑی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ سیاسی شخصیات پیداکیں۔ 

بلوچستان علمی لحاظ سے ایک زرخیز خطہ رہا ہے جس نے اہم سیاسی شخصیات سمیت عظیم پایہ کے دانشوروں کو جنم دیاجو ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کر ابھرے ۔ بلوچستان کوہر حوالے سے زیر تسلط رکھنے کے لیے یہاں ہمیشہ سیاسی انتشار کو ہوا دی گئی اور یہاں کی حقیقی قوم پرست سیاسی جماعتوں کوتوڑنے، انہیں کمزور کرنے کے لیے پیسے کی لالچ کے ساتھ ساتھ دیگر حربے بھی آزمائے گئے جس کے نتیجے میں یہاں سیاسی اتار چڑھاؤ زیادہ رہی۔ 

وفاق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر بلوچستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں ۔موجودہ حکومت کی تبدیلی شاید اس کا تسلسل نہ ہو مگر کم وبیش مسئلہ اسی طرح ہی ہے جس طرح موجودہ اسمبلی اراکین کے گلے شکوہ سامنے آئے کہ انہیں بلوچستان کے معاملات پر کبھی اعتماد میں نہیں لیاگیا۔

1972ء میں بننے والی حکومت اور تبدیلی کا موجودہ دور سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا چونکہ اس دوران پوری اسمبلی تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا مگر 97ء میں سردار اخترمینگل کی وزارت اعلیٰ کا خاتمہ موجودہ تبدیلی کی ملتی جلتی کڑی ہے ۔اس وقت بھی حکومتی ارکان نے اپنے وزیر اعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا اور اسی طرح مرکز میں حکومت مسلم لیگ ن کی تھی ۔

اس وقت نواز شریف نے اس مسئلے کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا تھا کہ یہ بلوچستان کا اندرونی سیاسی مسئلہ ہے ، یوں پھر جان محمد جمالی وزیراعلیٰ بنا دئیے گئے۔ 2013ء میں بننے والی حکومت نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کیلئے مری معاہدہ کیا جس میں اڑھائی سال قوم پرستوں کو دیا گیا جس میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے اوراڑھائی سال کے لیے مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اللہ خان زہری نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال لیا۔

اسی طرح کا معاہدہ 97ء میں سردار اختر مینگل اور نوابزادہ سلیم بگٹی کے درمیان طے پایا تھا مگر سرداراخترمینگل حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی انہیں ہٹا دیا گیا ۔ نواب ثناء اللہ خان زہری کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ آیا تاریخ پھر خود کو نہیں دہرائے گی ۔

یہ سوال ان کے اپنے اتحادیوں سے متعلق تھا جس پر نواب ثناء اللہ خان زہری نے مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلا وزیراعلیٰ بلوچستان میں ہوں اور اتحادی جماعتیں میرا ساتھ دینگی۔ شومئی قسمت کہ نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف اپنی ہی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں نے کردار ادا کیا اور اس طرح عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی۔ 

منحرف ن لیگی ارکان نے پارٹی نہ چھوڑنے کی بھی بات کی تھی مگر ایسا کرنا شاید ممکن نہیں تھا کیونکہ ن لیگ عام انتخابات سے قبل بلوچستان میں ان کی جگہ نئے امیدوار میدان میں اتارنے کی تیاری کرچکی ہے اور یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ مسلم لیگ ن اب بلوچستان حکومت میں شامل نہیں ہے۔ 

وزیرداخلہ سرفرازبگٹی نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک نئی جماعت بنارہے ہیں جس کا اعلان جلد ہی وزیراعلیٰ بلوچستان کرینگے ۔اس کے ساتھ ق لیگ بھی شاید اب نہیں رہے گی کیونکہ شنید میں آرہا ہے کہ نئی جماعت کی سربراہی نواب ذوالفقار مگسی کرینگے جس میں خاص کردار جمالی خاندان کا ہوگا متحدہ مسلم لیگ جماعت کا نام ہوگا اور یہ عام انتخابات میں ایک الائنس بناکر حصہ لے گی ۔ 

بلوچستان میں نئی جماعت پہلی بار نہیں بن رہی اس سے قبل بھی قوم پرست جماعتیں بننے کے کچھ عرصے بعد دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی ہیں اور نام بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں مگر تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ متحدہ نام کی جماعت بننے جارہی ہے اور وہ بھی بلوچستان میں۔یہ جماعت کتنی دیرپا ثابت ہوگی وقت ووحالات اس کا تعین کریں گی ۔