چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خالد نے چینی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چین کا صنعتی پارکس بنانے کا ریکارڈ بہت کامیاب رہا ہے اور چین پاکستان میں بھی نو انڈسٹریل پارکس بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں9 خصوصی صنعتی پارکس بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں سے تین رواں برس مکمل کر لیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ان پارکس میں چین اور پاکستان کے سرمایہ کاروں کے اشتراک سے صنعتی یونٹس لگائے جائیں گے جن سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔
خالد مسعود کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق اب تک اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان میں 60ہزارافراد کو روزگار مل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ روزگار ملنے کے علاوہ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت سڑکوں اور دیگر سہولیا ت کی تعمیر سے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے ملک کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھے گی۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں جاری منصوبوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے خالد مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت 22 چھوٹے بڑے منصوبوں پر تعمیراتی کام جاری ہے اور یہ تکمیل کے مختلف مراحل ہیں جبکہ22 ہزار پاکستانی طلب علم سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف مضامین میں چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پرسی پیک کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور خطے میں اس سے ایک بہت بڑی معاشی تبدیلی آنے کا امکان ہے ۔
سی پیک منصوبے کا مرکزی مقام بلوچستان خاص کر گوادر ہے۔بلوچستان کے عوام نے سابقہ تلخ تجربات کو بھلا کر ایک بارپھر اس اہم منصوبے سے کافی امیدیں باندھ لیں ہیں کہ اس اہم منصوبہ سے بلوچستان پسماندگی کی تاریکوں سے نکل کر ترقی کے نئے منازل طے کرے گا ۔المیہ تویہ ہے کہ اس سے قبل جتنے بھی منصوبے بلوچستان میں شروع کئے گئے یا وسائل دریافت ہوئے اس سے بلوچستان کو کچھ بھی نہیں ملا،صرف شخصیات کو نوازا گیایوں ریکارڈ کرپشن کی داستانیں رقم کی گئیں۔
چونکہ سی پیک اپنی نوعیت کا الگ منصوبہ ہے اس پر عام عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں جو اپنی زندگی میں بہتری کی توقع کررہے ہیں ساتھ ہی یہاں کی تجارت سے وابستہ افراد بھی اپنا کردار دیکھنا چاہتے ہیں جنہیں سرمایہ کاری کا موقع میسر آئے گا۔ دوسری طرف سی پیک منصوبہ کا مرکزی مقام گوادر آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جن کو حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔
چین نے تو اپنے شہرکاشغر کو اہمیت دیتے ہوئے وہاں تیزی سے کام کا آغاز کیا ہے تاکہ وہاں ترقی کے نئے دروازے کھل جائیں تو ہماری حکومت گوادر کے لیے ایسا کیوں نہیں کرتی۔ موجودہ صوبائی حکومتی واپوزیشن قیادت دونوں ہی سی پیک کی کامیابیوں کیلئے کوشاں ہیں اور خاص کر بلوچستان کو اس کا حق دلانے کیلئے پُرعزم ہیں ۔
اس سے قبل بھی معاشی تجزیہ کاروں نے سی پیک تناظر میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی توجہ راہداری پر مرکوز کراہی ہے کہ اگر بہترین انداز میں سڑکوں ،ریلوے ٹریک کا جال بچھاتے ہوئے سینٹرل ایشیاء تک رسائی کو یقینی بنایا جائے تو ملکی خزانہ کو سالانہ اربوں ڈالر کا منافع ہوگا اور پاکستان بیرونی قرضوں سے نجات پالے گا بشرط یہ کہ اس سے منصوبہ کو شفاف طریقے سے کامیابی کے ساتھ ہمکنار کیا جائے ناکہ ماضی کی طرح صرف شخصیات کو نوازنے کی کوشش کی جائے۔
یہاں کے عوام کو تلخ تجربہ ہے کہ بلوچستان کے منصوبوں سے وفاق اپنا حصہ تو برابر لیتاہے جبکہ سرمایہ کار ملک یا کمپنی کو مکمل چھوٹ دی جاتی ہے اور وہ اپنے منافع میں سے یا وفاق پاکستان اپنے حصے میں سے بلوچستان کے لوگوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کرتیں، اور وہ علاقے اپنی ماضی کی طرح پسماندگی کی تصویر بنی رہتی ہیں۔
نجی کمپنیاں منافع لیکر بلوچستان کو مکمل نظر انداز کرتے رہے ہیں اس لئے یہاں ہرمنصوبے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ اس بے یقینی کو یقین میں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کا مکمل اختیار، اختیار داروں کے پاس ہے۔
سی پیک منصوبہ،9 صنعتی پارکس
وقتِ اشاعت : March 26 – 2018