|

وقتِ اشاعت :   March 30 – 2018

بلوچستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ تلخ رہی ہے ،نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد جب رکھی گئی تو بلوچستان کے زیرک سیاستدان اس سے وابستہ ہوئے جن میں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری سمیت دیگر سیاسی اکابرین شامل تھے گوکہ نواب اکبرخان بگٹی نیپ کے باقاعدہ رکن نہیں تھے مگر وہ نیپ کیلئے سرگرم رہے۔

72ء کے انتخابات میں اہم کردار ادا کیا، اختلافات کے باعث نواب اکبرخان بگٹی نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی جس کی خاص وجہ نواب اکبر خان بگٹی نے خود اپنی زندگی میں بتائی کہ نیپ حکومت کے دوران کوئٹہ میں میری رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا گیا جس میں چادر وچار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیااور مجھے سازشی قرار دیا گیا۔

نواب اکبرخان بگٹی کے اختلافات کی بنیادی وجہ ان پر لگی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی تھی جسے نیپ حکومت نے ختم کرنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا جس سے نواب اکبر خان بگٹی نالاں ہوئے اور اس طرح یہ اختلافات شدت اختیار کرگئے ۔

نیپ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان کشیدگی بھی عروج پر تھی جس کا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھرپو رطریقے سے اٹھاتے ہوئے ان اختلافات کو مزید ہوا دی اور اس طرح نیپ کی حکومت کو تحلیل کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کرکے نواب اکبرخان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقررکردیا ،گوکہ نواب اکبرخان بگٹی بھی زیادہ دیر تک اس منصب پر نہیں رہے۔ ان اختلافات کی وجہ دونوں جانب پیدا کردہ غلط فہمیوں سمیت سیاسی بالادستی کا عنصر بھی تھاجو ہمارے یہاں کے سیاسی مزاج کا حصہ رہا ہے۔

نیپ کے خاتمے کے بعد پھر ایک سے ایک نئی جماعتیں بنتی گئیں ،مختلف الائنس تشکیل دیئے گئے مگر یہ تمام تجربات دیرپا ثابت نہیں ہوئے اور مزید دھڑے بندی کا شکارہوئے ۔ ماضی سے لیکر آج تک بلوچستان میں کوئی مضبوط جماعت ابھر کر سامنے نہیں آسکی جس کی ایک اور بنیادی وجہ آپسی چپقلش بھی ہے۔

نیپ سے لیکر پاکستان نیشنل پارٹی کی تشکیل تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جہاں اندرونی سیاست انتشار کا شکار رہی، وہیں مرکز کے ساتھ بھی بلوچستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اب بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔

پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بزرگوں کے متعین کردہ راستوں پر چل کر بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑینگے، مرکزی جماعتوں نے بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا اور کبھی یہاں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔

ہماری جماعت کا مقصد بلوچستان کو اس کا قانونی وآئینی حق دلانا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قوم پرست،مذہبی، مرکزی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اندرونی اختلافات کا شکار ہوتی رہی ہیں جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی ہم یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آگے چل کر ہماری جماعت اختلافات کا شکارنہیں ہوگی۔

کوشش یہی ہوگی کہ ماضی کے تجربوں کو مد نظر رکھ کر تمام ساتھیوں کی مشاورت سے ہم اپنی جماعت کو بہتر انداز میں آگے بڑھائیں جو غیر روایتی سیاست کرے گی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے جماعت پر اٹھنے والے غیر سیاسی قوتوں کے ملوث ہونے کے متعلق الزامات پر کہاکہ ہم اپنے عمل سے ان تمام الزامات کا جواب دینگے ۔

جو انگلیاں اٹھارہے ہیں 2013ء کے انتخابات میں ان کیلئے عوامی رائے کیا تھی ،یہ پورا بلوچستان جانتا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعت کے معرض وجود میں آنے کے بعد یقیناًبلوچستان کی سیاسی صورتحال میں بڑی تبدیلی آئے گی کیونکہ اس جماعت میں بلوچستان کے اہم قبائلی وسیاسی شخصیات شامل ہیں۔

عام انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بھی امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا ، البتہ سیاسی تاریخ بھی مدنظر رہے کہ اندرونی اختلافات ہماری سیاست پر ہمیشہ حاوی ر ہے ہیں جس کے باعث بلوچستان میں کوئی منظم جماعت ابھر کر سامنے نہیں آسکی ۔دوسرا معاملہ مرکز کے ساتھ تعلقات بھی ہیں یہ رسہ کشی بھی جاری و ساری ہے جو نئی جماعت کیلئے تجربے کے ساتھ چیلنج بھی ثابت ہوگی۔