وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر ملک میں مشکلات ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اداروں کے سربراہوں سے ملیں اور ان مشکلات کا حل نکالیں۔سرگودھا میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور سپریم کورٹ کے سربراہ سے مل سکتے ہیں۔
عدلیہ غیر جانبداری سے اپنا کام جاری رکھے گی۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ میں نے ملاقات کے لیے رابطہ کیا اور ہماری دو گھنٹے ملاقات ہوئی۔ امید ہے کہ انہوں نے میری باتوں کو سمجھا ہو گا اور میں نے ان کی باتیں بھی سنی ہیں۔
کسی نے بیان لگایا تھا کہ فریادی بن کر گئے تھے تومیں اس ملک کا فریادی ہوں۔ نیب سے انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے ، یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اوراب بھی برملا کہتا ہوں ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس فیصلے کی سیاہی سوکھی نہیں تھی کہ میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیا۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ تاریخ اس فیصلے کو کیسے دیکھتی ہے یہ بھی وقت ثابت کر ے گا۔ اس سے پہلے انہی عدالتوں نے نواز شریف کو ہائی جیکر قرار دیا تھا۔ ہم سب کو سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کے فیصلوں سے ملک کو نقصان ہوتا اور ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔وزیراعظم نے سینیٹ الیکشن اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عزت کرسی پر بیٹھنے سے نہیں آتی۔آج جو سینیٹ میں سینیٹر آئے ہیں وہ پیسے دے کر آئے ہیں اور ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت کرتا ہو گا۔
تازہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ چیف جسٹس کا ایک بیان گزشتہ روز آیا تھا کہ فریادی کی فریاد سنی تھی ،دیا کچھ نہیں بلکہ کھویا ہے ساتھیوں اور عدلیہ کا وقار عزیز ہے۔ چیف جسٹس کے بیان کے بعد ایک عجیب سے ہلچل پیدا ہوگئی ، جب وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان نثار ثاقب سے ملاقات کی تو اس دوران مختلف قیاس آرائیاں سامنے آئیں۔
ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں،اس بارے میں سوفیصد وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا بلکہ صرف خیالی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ لہذا ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو ذہن نشین کرنا چاہئے کہ ذرائع ابلاغ عوام کی آنکھ اور دماغ ہوتی ہے اور ان کی معلومات کا ذریعہ یہی ہے اگر ذرائع ابلاغ ہی غیر ذمہ دارانہ روش اپنائے گی تو عوام کا اعتماد اس سے اٹھ جائے گا۔
اس سے قبل میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک پروگرام کے میزبان نے اپنی طرف سے کچھ انکشافات کیے مگر اس کے ثبوت ان کے پاس نہیں تھے ۔جب سماعت کے دوران ان سے خودایک میڈیا پرسن نے کہاکہ اب بھی موقع ہے آپ معافی مانگ لیں مگر وہ بضد رہے کہ وہ ثبوت کی بنیاد پر بات کررہے ہیں۔
لیکن جب موصوف شواہد سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہ کرسکے توپھر معافی مانگنے کی استدعا کی ،تب سپریم کورٹ کی جانب سے سخت برہمی کا اظہار کیا گیا اور اس طرح تمام حلقوں میں اس کی جگ ہنسائی ہوئی ۔درحقیقت اس واقعے سے ذرائع ابلاغ کی ساکھ پر سوالات اٹھنے لگے کیونکہ یہ ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے جہاں معمولی غلطی تک کی گنجائش نہیں۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی ترجمان کی حیثیت سے بات کی جاتی ہے اور مکمل جانبداری کے ساتھ کسی کو بھی ہدف بنایا جاسکتا ہے جو ذرائع ابلاغ کے شایان شان نہیں۔
سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے گزشتہ روز فریادی سے متعلق بیان کی وضاحت سامنے آئی جو ایک اچھا عمل ہے کیونکہ جو باتیں اداروں کے سربراہان کے متعلق کی جارہی تھیں یہ قطعاََ ملکی مفادمیں نہیں ۔ ملکی اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی ہی ہمارے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے ۔ٹکراؤ بحرانات کاسبب بنتی ہے اور جن حالات کا سامنا اس وقت ملک کررہا ہے ان کا مقابلہ مل کر ہی کیاجاسکتا ہے۔