وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر جمعہ کو افغانستان کے دورے پر کابل پہنچے ۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان وفود کی سطح پر بھی ملاقات ہوئی۔
پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی نے خطے کی سکیورٹی کے حوالے سے مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا خیر مقدم کیا ۔
وفود کی سطح پر ہونے والی اس ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغان مہاجرین کی متفقہ ٹائم فریم میں واپسی، قیدیوں کی واپسی کے لیے کاغذی کارروائی شروع کرنے اور سرحد پار سے بمباری کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی۔
دونوں ممالک کے سربراہان نے علاقوں کو آپس میں ملانے کے لیے کوئٹہ، قندھار اور ہرات ریلوے اور پشاور، جلال آباد ریلوے سمیت پشاور، کابل موٹروے کے حوالے سے بھی بات کی۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے فوجی اور سیاسی رہنما ء باقاعدگی سے کابل کے دورے کر رہے ہیں۔ برف پگھلنے کا بظاہر آغاز پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس سال فروری میں دورے سے ہوا۔
کافی تلخیوں اور تاخیر کے بعد ہونے والے اس دورے میں جنرل باجوہ نے افغانستان اور امریکہ دونوں کو علاقائی سکیورٹی معاملات پر مشترکہ اور تسلسل کے ساتھ کوششوں کی پیشکش کی تھی۔
اب اس حالیہ پاک افغان حکام ملاقات سے عدم اعتماد کی فضا ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں گزشتہ کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے کچھ غلط فہمیوں نے جنم لیا جس سے ایک ایسی فضاء قائم ہوئی جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی جس میں خاص کر سیکیورٹی معاملات شامل ہیں۔
پاک افغان مذاکرات خطے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات سے یہاں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا،انٹیلی جنس شیئرنگ، بارڈر مینجمنٹ میں بہتری، سرحدوں کی بہتر نگرانی ،دفاعی، سفارتی و سیاسی تعلقات کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان موجود بہت سے ابہام دور ہونگے ۔
کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود شکوک وشہبات اورالزام تراشیوں سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں لہذا ایسی صورتحال پاکستان اورافغانستان دونوں کے مفاد میں نہیں ۔
پاکستان کے سیاسی وعسکری حکام بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پُرامن افغانستان خطے کیلئے انتہائی ضروری ہے اور پاکستان ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے جس طرح ماضی میں پاکستان افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرتا آیا ہے مگر بد قسمتی سے بات چیت میں تعطل اور حکام کے درمیان ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف دوریاں پیدا ہوئیں بلکہ غلط فہمیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلا ۔
تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ پاک افغان سربراہان کے درمیان ملاقات سمیت دیگر امور پر بات چیت اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ اب برف آہستہ آہستہ پگھلنے لگی ہے۔
ان ملاقاتوں کے دوررس نتائج برآمد ہونگے بشرطیکہ خلوص کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایاجائے کیونکہ خطے کی چند ایک قوتیں پاک افغان تعلقات میں بہتری نہیں چاہتے ۔مگر جس طرح سے ایک سلسلہ اب چل چکا ہے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ایک خوشحال دور کا آغاز کیاجاسکے۔