کشمیر میں بھارتی جارحیت سے 20 نہتے کشمیری شہید جبکہ 200 زخمی ہو گئے، کشمیر میں حالات اب تک کشیدہ ہیں ۔ مختلف حصوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق آزاد کشمیر کی حکومت نے ان ہلاکتوں کے خلاف یوم مذمت منانے کا اعلان کیا ہے۔آزاد کشمیرکے وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی فوج اور خفیہ ادارے کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔
ٹوئٹر پر دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے لکھا کہ ’وزیراعظم انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انڈین فورسز کے ہاتھوں اس بہیمانہ قتل، ریاستی کریک ڈاؤن، مظاہرین پر پیلٹ گنز کے استعمال اور انٹرنیٹ کی بندش کی مذمت کرتے ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس حوالے سے کہا: ’کشمیر کو خون میں نہلا دیا گیا درجنوں بیٹے شہید کر دئیے گئے کشمیری لاشیں گن رہے ہیں۔
جوان جنازے اٹھا رہے ہیں، بھارتی ریاستی دہشت گردی کشمیری نوجوان نسل کوختم کرنے کے درپے ہے۔ کشمیری خون عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے۔ پاکستان اس آزمائش میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کی غزہ کی سرحد پر احتجاج کرنے والے فلسطینی باشندوں پر وحشیانہ فائرنگ اور شیلنگ سے 8 فلسطینی شہید اور 780 زخمی ہوگئے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک کے دوسرے جمعے کو بھی غزہ کی سرحد پر ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ مظاہرین نے سرحد پر ٹائر جلائے اور آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں نعرے بازی کی۔
نہتے مظاہرین کے خلاف اسرائیلی فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فائرنگ کرکے مزید 8 نوجوانوں کو شہید کردیا جس کے بعد 30 مارچ ’یوم الارض‘ سے اب تک شہدا کی تعداد 27 ہوگئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 2000 سے زائد ہے۔فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے اب تک زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 780 سے تجاوز ہوچکی ہے جس میں سات خواتین اور 31 بچے بھی شامل ہیں۔
وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق سر اور جسم کے اوپری حصے میں گولیاں لگنے والے متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں میں مہاجرین، ڈاکٹرز، وکلاء، یونیورسٹی طلباء ، درس و تدریس سے وابستہ افراد، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔یہ احتجاجی مہم 30 مارچ سے 15 مئی تک جاری رہے گی جو کہ 70 سال قبل 1948ء میں اپنے گھروں سے نکالے گئے ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کی یاد میں ہرسال چلائی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں افغانستان کے صوبے قندوز میں افغان ایئر فورس کی مدرسے پر بمباری کے نتیجے میں 70 افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق ملکی فضائیہ کے طیاروں نے طالبان کے زیر کنٹرول ضلع دشت ارچی میں واقع ایک مدرسے کو بموں سے نشانہ بنایا، فضائی بمباری کے وقت مدرسے میں سینکڑوں افراد موجود تھے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والے عام شہری تھے۔
دوسری جانب افغان فضائیہ نے بمباری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فضائی کارروائی کے وقت مدرسے میں طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے رکن ملا بیریانی سمیت کئی دیگر طالبان موجود تھے۔ حکام نے بمباری کے نتیجے میں اب تک 70 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے جس کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔
قندوز کی صوبائی کونسل کے ایک رکن مولوی عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ ’مولوی گجر‘ نامی مدرسے پر اس حملے کے نتیجے میں 50 سے 60 تک طالبان عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔واضح رہے کہ دو سال قبل افغان فورسز کی بھاری نفری قندوز صوبے میں افغان طالبان کے زیراثر علاقوں میں تعینات کی گئی تھی جس کے بعد سے طالبان اور سیکورٹی فورسز میں خونریز جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
اس حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ اس طرح کے حملے عوام اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، اس دردناک حملے نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔کشمیر اور فلسطین میں جاری بربریت پر عالمی برادری کی خاموشی حیران کن ہے ۔
اقوام متحدہ کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ کشمیر اور فلسطین پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اسے فوری روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے جبکہ اسلامی ممالک بھی اس معاملے پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مؤثر انداز میں اپنا احتجاج عالمی دنیا کے سامنے ریکارڈ کرائیں۔ عرصہ دراز سے مسلم ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں جبکہ او آئی سی کی غیر فعالیت بھی لمحہ فکریہ ہے ۔