|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2018

پاکستان کی سیاسی معیشت کے بارے میں زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئیں،اور اگر کچھ کتابیں منظر عام پر آئی بھی ہیں تو وہ ڈاکٹر عشرت حسین جیسے ممتاز لکھاری کی تحریر کردہ نہیں ہیں،جن کے پاس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سربراہی اور قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات کی صدارت(2008) کا تجربہ بھی ہے۔

چنانچہ ان کی کتاب کا عنوان ،’Governing the Ungovernable-Institutional Reforms for Democratic Governance’ خاصا چونکا دینے والا ہے۔آپ اس تجسس کے ساتھ کتاب پڑھنا شروع کرتے ہیں کہ کون”ungovernable” (ناقابل انتظام)ہے مگر قاری کی طرح خود مصنف بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ ” پاکستان کو ایک ایسی ریاست کیوں سمجھا جاتا ہے جس کا انتظام چلانا ممکن نہیں ہے” ۔

ڈاکٹر حسین نے وضاحت کی ہے کہ ان کی گورننس کی تشریح ” صرف ان اداروں تک محدود نہیں ہے جن کا محور ریاست ہے،بلکہ اس میں ایسے کثیر الجہتی ادارے بھی شامل ہیں جو وسیع مفہوم کا احاطہ کرتے ہیں” ۔وہ گورننس کی فہرست میں معاشرے، سیاسی انتظام،پرائیویٹ سیکٹر،فوج،مذہبی اداروں اور خارجی اداکاروں کو شامل کرتے ہیں۔
ریاست کی طرف سے ان اداروں کا انتظام جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : ڈاکٹر حسین نے جن اداروں کا ذکر کیا ہے ان میں سے کون سے ادارے ” ناقابل انتظام” ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ” بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی ،جہادی عناصر اور گروپوں کے ابھار کی تشریح بھی ریاست اور اس کے اداروں کی کمزوری کے حوالے سے کی جا سکتی ہے ۔جب لوگ ریاستی اداروں سے حد سے زیاہ مایوس اور نا امید ہو گئے تو خلا ء پُر کرنے کے لیے یہ غیر ریاستی اداکارآ گئے اور انھوں نے انصاف، سروسز ڈلیوری اور سیکیورٹی کے الگ متوازی نظام چلانا شروع کر دیئے” ۔

یہ وضاحت، اُن تمام محرکات کا احاطہ کرتے ہوئے پوری کہانی بیان نہیں کرتی جنھوں نے نہ صرف سوات بلکہ پورے ملک میں جہادی گروپوں کے ابھار میں کردار ادا کیا۔پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ نے،خاص طور سے جنرل ضیا الحق کی غیر قانونی حکومت کے دوران ،افغانستان میں سوشلسٹ قوتوں کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے خلاف نام نہاد جہاد کے لیے یہ عسکریت پسند اسلامی گروپ قائم کیے تھے۔

مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو فوجی حکومت نے ہوا دی۔افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کئی بھارت مخالف اسلامی عسکریت پسند گروپ قائم کیے۔سنگین مسائل پیدا کرنے والے یہ عسکریت پسند گروپ بعد میں ہاتھ سے نکل گئے اور آج تک پاکستانی ریاست کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

ریاستی اداروں میں سے شاید سب سے زیادہ ” ناقابل انتظام ” اسٹیبلشمنٹ ہے،جو حکومت کے کسی محکمہ کی طرح کام نہیں کرتی بلکہ ایک متوازی نظام چلاتی ہے جو ظاہری یا خفیہ طریقے سے منتخب سول حکومتوں کے خلاف کام کرتا ہے،مگر ڈاکٹر حسین کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سویلین حکومتوں کی ناکامیوں اور ان کی خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے مداخلت کرتی ہے۔

1948 میں انungovernable قوتوں نے پہلے کشمیر پر اپنے حقوق کا دعویٰ کرنے کے لیے غیر ریاستی ادا کاروں کو استعمال کیا ،1965 میں انھوں نے کشمیری مجاہدین کے بھیس میں تربیت یافتہ گوریلا جنگجو بھیجے،اور یہ اقدام بھارت کے ساتھ مکمل پیمانے پر جنگ کا باعث بنا۔ 1948 میں انھوں نے بلوچستان کے عوام کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا (جو ابھی تک جاری ہے)۔

انھوں نے 1971 میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا جس کے نتیجہ میں ملک ٹوٹ گیا۔انھوں نے 1979 میں افغانستان میں جہاد کی حمایت اور انتظام کیا اور آج تک اس ملک میں افغان طالبان گروپوں کی شورش کی حمایت کرتے ہیں۔ 

انھوں نے1999 میں نواز شریف- واجپائی کوشش سے شروع ہونے والے امن عمل کو سبو تاژ کرنے کے لیے کارگل آپریشن شروع کیا ۔پاکستان کے لیے یہ تمام اقدامات سنگین مضمرات کے حامل ثابت ہوئے،کیونکہ ہماری خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیاں ان مہمات کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئیں۔

ان پالیسیوں کے منفی معاشی اور سماجی نتائج بھی برآمد ہوئے ۔سرکاری تخمینے بتاتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے پچھلے دس سال کے دوران پاکستانی معیشت کو 120 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

مختلف دہشت گرد گروپوں کے خلاف یہ جنگ انہی لوگوں کے خلاف لڑنی پڑی جنھیں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پیدا کیا تھا۔حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( FATF )کے پیرس اجلاس میں ہم تنہا رہ گئے اور اپنے پڑوسیوں کے خلاف غیر ریاستی اداکاروں کو پناہ دینے کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ہمیں گرے واچ لسٹ پر ڈال دیا گیا۔ڈاکٹر حسین نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا بہت اختصار سے ذکر کیا ہے ۔

کتاب میں مشرقی پاکستان کے24 سال تک اس معاشی استحصال کا قدرے تفصیل سے ذکر ہونا چاہیئے تھا جو بنگالیوں کی طرف سے آزادی کی جنگ لڑنے کا باعث بنا۔ انھوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ ” اگرچہ کہ مشرقی پاکستان کو ایوب خان کی معاشی اصلاحات اور عشرہ ء ترقی سے فائدہ پہنچاتھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت کے بارے میں فرض کر لیا گیا تھا کہ یہ ایک نو آبادی یعنی مشرقی پاکستان میں ایک نیم – نو آبادیاتی فوجی حکومت جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ مفروضہ تباہ کن ثابت ہوا” ۔

یہ محض ایک مفروضہ نہیں تھا بلکہ حقیقت تھی۔جب مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا تو وہ ایک بڑا برآمد کنندہ تھا مگر برآمدی آمدن کا بڑا حصہ مغربی پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔غیر ملکی قرضوں اور امداد کے استعمال میں بھی اسی قسم کا امتیاز روا رکھا جاتا تھا(بنگلہ دیش پیپرز،1971 )۔

معیشت کے بارے میں باب ،بعض دلچسپ حقائق کو اجاگر کرتا ہے اور بعض” مقبول مفروضوں” کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار(GDP) کی افزائش کے اتار چڑھاؤ کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے صفحہ نمبر63 پر دیئے گئے گوشوارے میں 1948 سے2016 کے درمیانی عرصہ کو الگ الگ کر دیا ہے۔

ان کی طرف سے جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق جی ڈی پی کی افزائش اس طرح رہی:1948سے1958 تک3.1 فیصد؛1958 سے1970 تک5.9 فیصد؛ 1972 سے1977 تک4.4 فیصد؛1977 سے1988 تک6.3 فیصد؛1988 سے 1999 تک4.7 فیصد؛2000 سے2007 تک 5.2 فیصد؛2008 سے2013 تک3.2 فیصد؛اور2013 سے2016 تک 4.1 فیصد۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تین فوجی حکومتوںیعنی جنرل ایوب خان،جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں معاشی اعتبار سے پاکستان کی شرح افزائش زیادہ رہی۔اتفاق سے یہ تینوں ادوار ایسے ہیں جب امریکہ اس علاقے میں اپنے سوشلسٹ مخالف ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کی مدد کر رہا تھا۔

ایوب خان کے دور میں افزائش اتنی ناہموار تھی کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان کے 87 فیصد مالی اور67 فیصد صنعتی وسائل22 خاندانوں کے ہاتھوں میں سمٹ گئے۔اس عرصہ کے دوران صوبوں کے درمیان جو تفریق پیدا ہوئی، اُس نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندانہ جذبات پیدا کرنے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا۔

جنرل ضیا کے دور میں ہم سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ میں خطرناک طریقے سے مدد کر رہے تھے۔اس جہاد کے مضمرات پر ہم اس کالم میں اوپر بات کر چکے ہیں۔

مشرف کے دور میں معیشت نے9/11 کے بعد اُسی وقت ترقی کی جب پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف جنگ میں امریکی فوجوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے التوا نے ایک وسیع مالی گنجائش پیدا کی اور سالانہ ترقیاتی منصوبوں کو دو گنا/ تین گنا کرنے کا موقع فراہم کیا۔

ڈاکٹر حسین نے پاکستان کا انتظام چلانے کے لیے جو حل تجویز کیا ہے،اُس سے زیادہ اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے ادارہ جاتی اصلاحات اور ایسے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے جنھیں” سیاسی بقا کی خاطر اداروں کی اس طرح اصلاح کے لیے مجبور کیا جائے،جس سے ڈلیور ہو سکے،تعلق داری، ذات پات، قبائلی وابستگی اور جاگیردارانہ اطاعت کی رکاوٹوں سے پاک” ابھرتے ہوئے متوسط طبقے سے امیدیں وابستہ کی ہیں۔

انھیں پورا ادراک ہے کہ یہ راستہ آسان نہیں ہو گا ،کیونکہ پوشیدہ مفاد ات رکھنے والوں کی موجودگی میں اس قسم کی اصلاحات کرنا مشکل ہو گا۔وہ بجا طور پر خبردار بھی کرتے ہیں کہ ” یہ تبدیلیاں ایک پانچ سالہ دورمیں نہیں آ سکتیں” ۔

اس راہ کو اختیار کرنے میں جو مشکلات محرک بنتی ہیں ہیں،وہ” معاشرے اور سیاسی نظام پر نظریہ اور مذہب کا غالب اثر ؛پاکستان کا ایک نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کی حیثیت سے ابھار،جس میں خوف اور عدم تحفظ نے بالا دست کردار ادا کیا ہے؛اور مذہب، آرمی اور امریکہ کے درمیان اتحاد ہے جس نے پاکستان کے معاملات کی تشکیل کی ہے” ۔

ان محرکات میں جو واحد تبدیلی یہ ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اب امریکہ کی جگہ چین نے لے لی ہے۔(کالم نگار ” پاکستان- خرابی اور اس کے اثرات” کا مصنف ہے۔