شام کے شہر دوما میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے حملے میں کم از کم 70 افراد کی ہلاکت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔امریکی صدر نے ٹویٹ میں شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے اتحادیوں روس اور ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کو ممکنہ طور پر اس معاملے پر بحث کر سکتی ہے کیونکہ اس کے 15 میں سے 9 ارکان نے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔یورپی یونین نے بھی بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری رد عمل کا مطالبہ کیا ہے۔شام اور روس دونوں کیمیائی حملے سے انکار کررہے ہیں۔
برطانیہ نے بھی اس حملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹویٹ میں کہا ہے کہ شام میں بلا وجہ کیمیائی حملے میں کئی افراد بشمول بچے اور عورتیں جاں بحق ہوئی ہیں۔ جس جگہ یہ حملہ کیا گیا ہے اس کا محاصرہ کیا ہوا ہے جس کا باہر کی دنیا کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
بشارالا سد کی حمایت کرنے کی وجہ سے صدر پیوٹن، روس اور ایران اس کے ذمہ دار ہیں۔دوسری ٹویٹ میں امریکی صدر نے کہاہے کہ اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔رضاکار اداروں کا کہنا ہے کہ طبی امداد اور تصدیق کے لیے اس علاقے تک رسائی دی جائے،اس سے قبل امدادی کارکنوں نے کہا تھا کہ شام کے شہر دوما میں کم از کم 70 افراد ممکنہ طور پر زہریلی گیس کے حملے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
وائٹ ہیلمٹس نامی امدادی تنظیم نے تہہ خانوں میں بیسیوں لاشوں کی تصویریں ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔دوسری جانب شامی حکومت نے کیمیائی حملے کی خبروں کو من گھڑت قرار دیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ انتہائی پریشان کن اطلاعات کا جائزہ لے رہا ہے اور یہ کہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر روس کو اس مہلک کیمیائی حملے کا ذمہ دار سمجھنا چاہیے جو شامی حکومت کی حمایت میں لڑ رہا ہے۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ حکومت کی اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ میں کوئی شبہ نہیں ہے۔بے شمار شامیوں کو کیمیائی ہتھیار سے بہیمانہ طور پر نشانہ بنانے کی ذمہ داری بالآخر روس پر عائد ہوتی ہے۔حکومت مخالف تنظیم غوطہ میڈیا سینٹر نے کہا ہے کہ مبینہ گیس حملے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ متاثر اور زخمی ہوئے ہیں۔
اس نے الزام لگایا ہے کہ ایک سرکاری ہیلی کاپٹر نے بیرل بم گرایا جس میں سارین نامی اعصاب کو مفلوج کرنے والے عوامل موجود تھے۔دوما کو مشرقی غوطہ میں باغیوں کے قبضے والا آخری شہر کہا جاتا ہے اور اسے حکومتی افواج نے کئی ماہ سے محصور کر رکھا ہے۔
گزشتہ کئی برس سے شام ایک خطرناک جنگ کی زد میں ہے ، شام میں جاری جنگ وسائل پر قبضہ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے خونی کھیل رچانے کیلئے ہمیشہ آمرانہ حکومتوں کاپروپیگنڈہ کیاجاتا رہا ہے اور پھر اس کے بعد ایک ایسی جنگ کی ابتداء کی جاتی کہ اس ملک میں ایک جمہوری عوامی حکومت قائم کی جائے گی جس سے عوام کو ظالمانہ نظام سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ آزادی سے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیاجائے گا۔
درحقیقت یہ جنگیں ہمیشہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطرلڑتی رہیں ہیں اور وسائل کو اپنے کنٹرول میں لیکر وہاں کے انتظامی اور دفاعی امور سمیت تمام معاملات کا فیصلہ اپنے پاس رکھتے ہیں جس کی مثال ہمیں تاریخ میں ملتی ہے۔ عراق، افغانستان سمیت دیگر مسلم ممالک پر ایسی جنگیں مسلط کی گئیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اب تک جن ممالک میں امن قائم کرنے کی کوشش کی اس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ حال ہی میں کشمیر،فلسطین اور افغانستان میں جس طرح خونی حملے کئے گئے اس پر کسی قسم کا کوئی ردعمل امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے نہیں آیا۔
شام میں بھی معصوم لوگ انہی عالمی مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں آخر یہ خونی کھیل کب تک جاری رہے گا۔ 21ویں صدی کو ویسے ہی وسائل پر کنٹرول کی صدی قرار دیا گیا ہے اور یہ جنگیں اسی کاتسلسل ہیں، ان کا امن ،جمہوریت اورعوام کی فلاح وبہبود سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شام سمیت دیگر مسلم ممالک میں جو مظالم ہورہے ہیں اس کیلئے اپنا ایماندارانہ کردار ادا کرے وگرنہ یہ جنگیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینگی۔
وسائل پرقبضہ کی جنگ
وقتِ اشاعت : April 10 – 2018