|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2018

سپریم کورٹ نے حکومت کو قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نج کاری سے روک دیا ہے اور اس کے ساتھ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اگر اس ادارے کے حصص کی نجکاری کی ضرورت ہو تو اس سے پہلے سپریم کورٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔سپریم کورٹ نے یہ حکم جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قومی ایئرلائن کے 96 فیصد حصص حکومت کی ملکیت ہیں۔ 

پی آئی اے2016 سے ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر کام کر رہی ہے اور اس کو کارپوریٹ کمپنی کی طرح چلایا جارہا ہے جس کا ایک بورڈ ہے جس میں 11 ارکان ہیں جس میں سے اکثریت حکومت کے نامزد کردہ افراد کی ہوتی ہے۔عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی جائے گی ۔عدالت نے پی آئی اے کے حکام سے گزشتہ دس سالوں کے دوران ادارے کو ہونے والے مالی نقصان کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قومی ادارے کو 360 ارب روپے کا خسارہ پہنچانے والے ذمہ داروں کا بھی تعین کرنا ہوگا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ادارے کو نقصان پہنچانے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیشن بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو بھی دیکھے گی کہ جن افراد کو اس ادارے میں بطور مشیر تعینات کیا گیا کیا وہ اس کی اہلیت رکھتے تھے یا پھر انہیں سیاسی مفاد کی خاطر نوازا گیا۔عدالت نے اس از خود نوٹس اور پی آئی اے میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق مقدمے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر پی آئی اے کے منافع بخش روٹس کو ختم کرکے ایک نجی ایئرلائن کو دینے سے متعلق خبر کا از خود نوٹس لیا تھا۔

یہ حقیقت کسی سے ڈکھی چھپی نہیں کہ ملک کے قومی اداروں میں بیشتر تعیناتی یقیناًسیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی جاتی ہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے منظور نظرافراد کو نوازا جاتا ہے جس کے نتائج ہمیں اداروں میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کی صورت میں ملتے ہیں۔

ہمارے یہاں قومی اداروں کے اندر سیاسی جماعتیں اپنے یونین ورکرزکے ذریعے اپنا سکہ چلاتے ہیں ،جب کرپشن کی تحقیقات، بھرتیوں کی جانچ پڑتال سمیت دیگر معاملات کو اٹھایا جاتا ہے تو یونین کو ڈھال بناکر بلیک میلنگ شروع کی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاملات کی تہہ تک پہنچنے سے قبل ہی بارگیننگ کا راستہ اپنایاجاتا ہے ۔ 

اول اول جب قومی اداروں کی تشکیل عمل میں لائی گئی تو بہترین ماہرین اورمحنتی لیبر اپنے فرائض بہتر طریقے سے سرانجام دیتے رہے جس کی وجہ سے اداروں نے قومی خزانے کو بہتر منافع دیا اور دنیا میں اپنا نام بنایا مگر سیاسی مداخلت ،بیڈگورننس اوراقرباء پروری کی وجہ سے ماہرین سمیت لیبر کو کرپشن کی طرف دھکیلاگیا اور اس طرح ہمارے منافع بخش ادارے تباہی کے دہانے پرپہنچ گئے۔ 

سب سے بڑی ذمہ داری حکمرانوں کی بنتی ہے کہ جو عوامی مینڈیٹ لیکر حکومتیں بناتی ہیں اور قومی اداروں کو تباہ کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اداروں کے اندرسیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر اداروں کو نقصان پہنچانے والے افراد پر ہاتھ ڈالا جائے۔ اداروں کی نج کاری کا خیال ہمیشہ کے لیے ترک کردیا جائے کیونکہ جن اداروں کو پرائیوٹائز کیا گیا وہ بھی عوام کے لیے مزید زحمت کا باعث بنے ہیں۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں آج اگر ہم کراچی میں بجلی کی صورتحال کو دیکھیں تو اس کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے ، نجی کمپنی کا منافع تو آسمان سے باتیں کرتا ہے لیکن وہ عوام کو بجلی دینے سے قاصر ہے اور اووربلنگ کے ذریعے عوام کو لوٹ رہی ہے ۔ ملکی اداروں کی تباہی کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے تاکہ ہم اپنے مزید اداروں سے ہاتھ دھونے سے بچ جائیں۔