|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2018

سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت اس آئینی شق کی زد میں آنے والے تمام افراد تاحیات نااہل ہیں،عدالتی فیصلہ متفقہ ہے اور اسے جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف امیدوار کی اہلیت جانچنے کے لئے ہے، اس میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں، اسے آئین کے دیگر آرٹیکلز کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھا جا سکتا، عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہے جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے۔

اس لیے جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی۔بنچ میں شامل فاضل جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے اضافی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ میں فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں مگر اس کی وجوہات نہیں ہیں۔ آرٹیکل62 ون ایف کی بنیاد ہماری اسلامی اقدار ہیں۔

اٹارنی جنرل کا موقف درست تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو طے کرنا چاہئے، ایسی شقوں کی تشریح انتہائی محتاط انداز میں کرنی چاہئے،عدالت بار بار کہہ چکی ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی دائمی ہوگی، ہم آئین کی تشریح کرسکتے ہیں اس میں ترمیم نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے 14 فروری 2018 کو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہل قرار دیا گیا تھا۔ 

اس شق کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔ درخواست گزاروں میں وہ اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ 

وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی کہ فیصلہ پہلے آتا ہے اور ٹرائل اور مقدمہ بعد میں کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ٹرائل نیب کورٹ میں جاری ہے۔ کوئی بھی دستاویز موجود نہیں جس کے مطابق نواز شریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ لی ہو۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف پر ابھی تک کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوا اور اسی الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء شاہ محمود قریشی نے اس فیصلہ کے بارے میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ تسلیم کرتی ہے۔

نواز شریف کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے اور تمام فیصلے آپ کی مرضی کے نہیں آ سکتے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ میرا ماننا ہے کہ سیاستدانوں کے مستقبل کے بارے میں ایسے فیصلے پاکستان کے عوام کو کرنے چاہئیں۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی نے خود ہی ہماری سیاست کو عدالتی رنگ دے دیا ہے۔ 

میاں محمد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد یقیناًملکی سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا ۔ اس سے قبل خود میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور مسلم لیگ کے رہنماء عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید کرتے نظرآئے ہیں مگر اس بار ان کی حکمت عملی تبدیل ہوگی اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مسلم لیگ کے فیصلے اب بھی میاں محمد نواز شریف کررہے ہیں اس کے باوجود کہ پارٹی کے صدر اب میاں شہباز شریف ہیں۔ 

عام انتخابات سے قبل یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جس کے اثرات ملکی سیاست پر یقیناًپڑینگے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد بھی مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی کیونکہ مسلم لیگ کے اندر دراڑیں پیدا ہوچکی ہیں اورحالیہ فیصلہ مسلم لیگ کو مزید آزمائشوں سے دوچار کرے گا۔